Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

کشمیر جل رہا ہے_ خدا کیلئے سنجیدگی اختیار کیجئے

جناب وزیراعظم کی سوموار کو کشمیر کی صورتحال پر پاکستانی موقف کے اعادہ سے عبارت تقریر مناسب تھی۔ بھارت کے زیرقبضہ کشمیر میں پچھلے 24دنوں سے کرفیو نافذ ہے۔ انٹرنیٹ اور مواصلات کے ریاستی ذرائع بند ہونے سے صرف افواہوں کا سفر جاری ہے۔
مقبوضہ کشمیر ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی جیل بن چکا۔ بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کی سینہ زوریوں اور قانون شکنیوں کے اکادکا واقعات خود بھارتی ذرائع ابلاغ رپورٹ کرنے پر مجبور ہیں۔
سوموار کو ہی بیارٹز میں جی سیون ممالک کے اجلاس کے دوران مودی ٹرمپ ملاقات ہوئی۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کا تنازع خود حل کرسکتے ہیں۔ میری ضرورت پڑے تو میں حاضر ہوں۔
افسوس کہ امریکی صدر نے بھارتی جارحیت اور اب جیل بنے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے دو لفط تک نہ کہے۔
آزادی اظہار، انسانی حقوق اور دوسرے معاملات میں عالمی ٹھیکیدار کا کردار اپنائے امریکی قیادت بھارت سے اپنے تجارتی سیاسی مفادات کے پیش نظر غالباً اس سے زیادہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتی جو سوموار کو ٹرمپ نے کہا۔

وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے پاکستانی عوام ہر جمہ کو بارہ سے ساڑھے بارہ بجے کے دوران نصف گھنٹہ سارے کام روک کر باہر نکلیں گے۔
اس ہفتہ واریکجہتی پروگرام سے کیا حاصل ہوگا اس پر بحث اُٹھانے کا فائدہ کوئی نہیں۔
مکرر یہ سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں کہ کشمیر کی صورتحال پر اقوام عالم تک پاکستان کا مؤقف اور کشمیریوں کا مقدمہ پہنچانے کیلئے دنیا بھر کے دارالحکومتوں کے ہنگامی دوروں کی بجائے ہمارے وزیزخارجہ ٹیلیفونک رابطوں، سیمیناروں اور میڈیاٹاک سے جی کیوں بہلا رہے ہیں؟۔
بہت ادب کیساتھ عرض کروں آزادی کے دن سے اب تک جس مسلم امہ کو سارے دکھوں کی دوابنا کر پیش کیا جاتا رہا وہ مسلم اُمہ اب کہاں ہے؟۔
انسانی تاریخ ہمیں بطور خاص یہ سمجھتاتی ہے کہ معلوم تاریخ کے کسی بھی دور میں ممالک کے درمیان مہم جوئی یا دفاع کیلئے مذہبی بنیادوں پر اشتراک عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
اقوام ہوں یا ممالک ان کے مفادات عقیدوں اور طفل تسلیوں سے سوا ہوتے ہیں۔
آپ پچھلے بہتر سالوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لیجئے۔
تین بڑے پاک بھارت تنازعات،
65 اور71ء کی جنگوں کارگل ایڈونچر سے پیدا شدہ صورتحال میں جنگ65 کے موقع پر انڈونیشیا، سعودی عرب اور ایران نے ہماری مدد کی۔ 71ء میں سقوط ڈھاکہ مشرقی پاکستان کے وقت سعودی عرب اور ایران دو ہی ملکوں نے ہمارے حق میں زبان کھولی۔ کارگل ایڈونچر سے پیدا شدہ صورتحال پر پوری مسلم دنیا بھارت کیساتھ کڑی تھی۔

یہ بھی پڑھئے:  کچھ نیا کر | سرفراز حسینی

خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہماری تاریخ کا شاندار دور ذوالفقار علی بھٹو کا دور ہے۔ 1974ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے اور پھر اگلے تین برسوں کے دوران 20لاکھ افراد کا سفارتی کوششوں سے خلیجی ریاستوں میں پہنچنا، خارجہ پالیسی نے ہی ہمیں جنگ میں شکست اور نصف ملک گنوا چکنے کے بعد باوقار انداز میں کھڑا ہونے میں مدد کی۔
بھٹو صاحب کے بعد کیا ہوا،
افغانستان میں سوویت امریکہ مفادات کی کوکھ سے پھوٹی جنگ میں اپنے سینگ پھنسانے کا نتیجہ کیا نکلا؟
فی الوقت تو چند اور بھی ہمارے سامنے چھوٹے بڑے تلخ سوالات ہیں۔
پچھلے چند دنوں کے دوران متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھارتی وزیراعظم کو اعلیٰ ترین سول اعزازات سے لاد دیا۔ دبئی میں مندر بنانے کی منظوری پچھلے سال ہی دی گئی تھی، اب بھارتی وزیراعظم نے بحرین کے دارالحکومت میں کرشنا مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور پرشاد تقسیم کیا

اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ پچھلے25دنوں کے دوران ہم دنیا کے خاک چھان چکے ہوتے، مسلم وغیرمسلم کی تمیز سے بے پرواہ ہوکر ممالک کے دارالحکومتوں میں ہمارے وفود کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف بھارت کا گھناؤنا چہرہ دنیا کو دکھا چکے ہوتے۔
ہماری وزارت خارجہ انسانی حقوق کی یورپی تنظیموں کے ساتھ ساتھ یورپ میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں سے منظم رابطہ کرلیتی تو جی سیون ممالک کے اجلاس کے موقع پر ایک مناسب اور پرامن عوامی احتجاج عالمی ذرائع ابلاغ کو کشمیر کی صورتحال پر متوجہ کر سکتا تھا۔
کیا کریں ہمارے ملتانی مخدوم کے پاس وقت بھی نہیں اور صلاحیت بھی۔
داخلی طور پر ہم سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں پر مشتمل کشمیرفورم بنا سکتے تھے۔
بدقسمتی سے یہ بھی نہیں ہوسکا۔ دو دن اُدھر مسئلہ کشمیر پر ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں حکومتی ایم این اے کشمیر پر بات کرنے کی بجائے فلاں چور فلاں ڈاکو کہتے اور دھمکیاں دیتے دکھائی دیئے۔
یہ ایک سرکاری ایم این اے کا رویہ نہیں، پوری سرکار اسی رویہ کا مظاہرہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔
سوال ہوتا ہے کشمیر ایشو پر قومی اتفاق رائے دیکھنے میں کیوں نہیں آیا؟
جواب ملتا ہے یہ اپوزیشن کے چور ڈاکو این آر او چاہتے ہیں، وہ ہم نہیں دیں گے۔
ارے بھیا کوئی آپ سے این آر او مانگے تو بے شک نہ دیں لیکن یہ تو بتا دیں کہ کشمیر کی صورتحال پر جس اتفاق رائے کی ضرورت ہے وہ کہاں ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس نازک وقت میں اگر ہم نے کشمیری عوام کیلئے اپنے قومی اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو کشمیریوں کی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مناسب یہی ہوگا کہ فی الوقت کشمیر کے معاملے کو اولین ترجیح قرار دیجئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس