Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

کچھ تو چارہ گری کیجئے صاحب

عجیب سی بے بسی ہے۔بہترسال ہوگئے پاکستان بنے ہوئے لیکن ان گزری سات دہائیوں میں سماجی شعور کے ارتقا کیلئے سنجیدہ تو رہنے دیجئے غیر سنجیدہ کوششیں بھی نہیں ہوئیں۔
یہاں انسان سازی پر کوئی بھی توجہ نہیں دیتا حالت یہ ہے کہ دودن قبل پڑھے لکھے پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں ایک صاحب نے اپنی اہلیہ کو صرف اس جرم میں قتل کردیا کہ ان کے ہاں چوتھی بچی کی ولادت ہوئی۔
جہالت سے عبارت یہ کوئی پہلا واقعہ ہر گز نہیں۔آپ ملک کے چاروں صوبوں میں روزمرہ ہوتی طلاقوں کے معاملات کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے۔
دوبڑی وجوہات سامنے آئیں گی اولاً اولاد نرینہ(یعنی بیٹے کا پیدا نہ ہونا) سے محرومی۔ثانیاً ذہین ہم آہنگی کا فقدان اور معروضی حالات۔
یہی وہ وجہ یا وجوہات ہیں جن کی بنا پر مجھ ایسے طالب علم عشروں سے کہتے لکھتے چلے آرہے ہیں کہ نکاح کے فارم میں دو اضافی خانے بہت ضروری ہیں اولاً نئے جوڑے کے مکمل طبی معائنہ کا اور ثانیاًپیشگی نفسیاتی کونسلنگ کا

نکاح رجسٹرار کو بوقت نکاح فریقین۔ دولہا ودلہن والوں سے ہر دو حوالے سے یہ سرٹیفیکیٹ لازماً طلب کرنے چاہئیں۔پیپلز پارٹی کے ایک دور حکومت میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی وبہبود آبادی بننے والے جے سالک نے کراچی میں اپنی وزارت کے زیر اہتمام ایک سیمینارمنعقدکروایا تھا۔
جید شخصیات کے ساتھ یہ تحریر نویس بھی تاج ہوٹل کراچی میں منعقد ہونے والے اس سیمینارمیں بطور مقرر شریک ہوا۔
تین عشرے قبل منعقد ہوئے اس سمینار میں بھی عرض کیا تھا کہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے والے نئے جوڑوں کا مکمل طبی معائنہ ہونا چاہئے تاکہ پیشگی یہ علم ہو جائے کہ فریقین میں سے کسی بھی ایک کو کوئی ایسی بیماری تو نہیں جو آگے چل کر اولاد میں منتقل ہوسکے۔
ثانیاً اولاد پیدا کرنے کی طبی اہلیت کیا ہے۔
ثالثاً یہ کہ نفسیاتی کونسلنگ سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ نئے جوڑے میں ذہنی ہم آہنگی کا تناسب کیا ہوگا۔
یاد پڑتا ہے کہ دیگر مقررین نے ان تجاویز کی تحسین تو کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ملک میں غربت اور خواندگی بہت زیادہ ہے ان حالات میں یہ ممکن ہی نہیں۔
سوال وجواب والے سیشن میں اپنے موقف کے حوالے سے ہوئے سوالات پر وضاحت کے ساتھ سامعین کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر شادی سے قبل طبی معائنے اور نفسیاتی کونسلنگ کی ضرورتوں کو نظر اندازکیا جاتا رہا تو جو مسائل اس حوالے سے آج موجود ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوگا۔
سمینار سے خطاب کرنے والے دو مذہبی سکالرز نے اس تحریر نویس کی تجاویز کو یکسر غیر اسلامی قرار دیا تو عرض کیا بس اتنا بتا دیجئے کہ کہاں لکھا ہے کہ طبی معائنہ نفسیاتی کونسلنگ حرام ہیں؟

یہ بھی پڑھئے:  بھٹو کی غلطیاں - تین جماعتوں کی تاریخی کہانی (قسط:3)

پچھلے تین برسوں کے دوران۔گھریلو تشدد، طلاق کی شرح میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ صرف بیٹیاں پیدا ہونے سے جنم لینے والے مسائل جس طور سامنے آرہے ہیں ان سے مجھے اپنے اس موقف کے درست ہونے پر ایمان کی طرح اعتبار آیا
اس لیے آج بھی یہ سطور لکھتے ہوئے دست بدستہ درخواست گزارہوں کہ عائلی قوانین میں نئے جوڑوں کے شادی سے قبل طبی معائنے اور نفسیاتی کونسلنگ کو لازمی قرار دیا جائے۔
ایسا ہو جائے تو ہم بہت ساری خرابیوں سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔
یہاں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ جدید میڈیکل سائنس کزن میرج سے پیدا ہونے والے جن مسائل کی نشاندہی کر رہی ہے ان سے بھی صر ف نظر نہیں کرنا چاہیئے ہمارے سامنے ایک دو نہیں درجنوں مثالیں موجود ہیں اس لیے اگر رشتہ طے ہونے کے بعد یہ دو مرحلے طبی معائنہ اور نفسیاتی کونسلنگ کرالیے جائیں تو اصلاح احوال کی ٹھوس صورتیں بن سکتی ہیں۔
دوسری اہم بات مہنگائی سے پیدا شدہ صورتحال ہے۔
عید قربان سے قبل سبزیوں ،مرچ مصالحہ جات اور پھلوں کی قیمتوں میں جو مصنوعی اضافہ ہوا تھا وہ آٹھ نو دن گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوا
قیمتوں میں اضافے کی دو وجوہات ہیں اولاً،بجلی ،گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ اور ثانیاً منافع خوری کا جنون،
بجلی ،گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے ہونے والی مہنگائی کی ذمہ داری تو حکومت پر عائد ہوتی ہے،مگر یہ عیدین اور دوسرے اہم ایام میں قیمتوں میں مصنوعی اضافہ تو ہوس زر سے بندھا ہو اہے ،
مثلاً عید سے ہفتہ بھر قبل پیاز50روپے کلو تھے عید پر100روپے کلو ہوگئے۔ ٹماٹر70روپے کلوتھے 150 روپے تک پہنچ کر اب 110روپے کلو ہیں، ادرک100روپے پائوہے۔ہری مرچ75 روپے پائو،آلو50روپے کلو برائلز زندہ200روپے سے 230تک جیسا داو لگے اور برائلز کا گوشت 270روپے سے290 روپے تک فروخت ہورہا ہے۔
پھلوں کی قیمتوں میں بھی عید سے دو دن قبل پچاس فیصد اضافہ ہوا جو ابھی تک برقرار ہے۔
یہ بجا ہے کہ ہم سب ہمیشہ مہنگائی کا ذمہ دار حکومت وقت کو قرار دیتے ہیں۔
بنیادی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ بہر طور حکومت کو ہی کرنا ہوتے ہیں۔
یہاں ایک طرف تو صورت یہ ہے کہ منافع خور پر چون فروش لوگوں کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں دوسری طرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز پر300اشیاء کی قیمتوں میں15سے 45فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کھلی مارکیٹ اور خود یوٹیلٹی سٹورز پر منافع گیری کی اس صورتحال سے پیدا شدہ مسائل کو کون دیکھے گا اور کون ہے جو مہنگائی سے پریشان حال شہریوں کی داد رسی کرے گا ؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی کوئی نہیں
ہر حکومت کی طرح اس حکومت کی ترجیحات بھی مختلف ہیں اور اب تو خیر سے مسلہ کشمیر کا بوجھ بھی حکومت کے کاندھوں پر آن پڑا ہے اس لیے ذمہ داران یہ کہہ سکتے ہیں
” کشمیر کی آزادی تک مہنگائی برداشت کر لیں ”
مطلب پھر آپ اس کے عادی ہو ہی جائیں گے
فقیر راحموں کا کہنا ہے ۔
” اگر بچ گیے تو ضرور عادی ہوجائیں گے ”
ہماری دانست میں دیگر امور کے ساتھ حکومت بے لگام مہنگائی کو کنٹرول کرنے کےلیے فوری اور سخت اقدامات اٹھائے تاکہ معاشرے کے نچلے طبقوں کے لوگ نوالے نوالے کو ہی نہ ترس جائیں

حالیہ بلاگ پوسٹس