جناب نواز شریف’ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد اول کیپٹن (ر) صفدر کو نیب کی احتساب عدالت نے بالترتیب 10سال’ 1+7 سال’ ایک سال کی سزا سناتے ہوئے نواز شریف کو 8ملین پاؤنڈ اور مریم نواز کو 2ملین پاؤنڈ جرمانہ کی سزا بھی دی ہے۔
تینوں شخصیات کو دس دس سال کیلئے نااہل بھی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم یہ نااہلی سزا مکمل ہونے پر شروع ہوگی۔
نواز شریف پر الزام ہے کہ ان کے زیرکفالت بچوں نے لندن میں جائیداد خریدی۔ مریم والد کی جائیداد چھپانے کیلئے آلہ کار بنیں جبکہ ان کے شوہر اس جرم میں معاون تھے۔ مجموعی طور پر ایک ارب 65کروڑ روپے کے جرمانہ کے علاوہ لندن والے فلیٹس بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی جاری ہوا۔
جناب نواز شریف نے اس عدالتی فیصلے کے بعد لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ایون فیلڈ ریفرنس میں ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ مجھے تابعدار نہ رہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔
نام لئے بغیر انہوں نے بعض ریاستی اداروں کے کردار پر سوالات اُٹھاتے ہوئے سخت پیرائے میں چند باتیں کہیں ۔ سوال کیا: میری بیٹی کو کیوں سزا دی گئی، وہ تو کبھی سرکاری عہدے پر نہیں رہی۔
انہوں نے وطن واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی میری اہلیہ کو ہوش آیا واپس چلا جاؤں گا۔ زنجیروں کو کاٹنا ہے۔ عوام مجھے اکیلا مت چھوڑیں۔ جمعہ کی سپہر 4بار تاخیر کے بعد سنائے گئے 174صفحات کے عدالتی فیصلے پر میدان قانون کے شہسوار اور اہل دانش کے تبصرے وتجزئیے جاری ہیں۔
نون لیگ اور اس کے حامی انصاف کے قتل کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف لڈیاں ڈالتے ہوئے منہ میٹھا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ بحث اسی خبر پر اُٹھی’
نومولود پنجابی کامریڈوں و کمرشل لبڑلز اور ان کے چند پشتون ہمنواؤں کا غصہ دیکھنے والاہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلی بار کسی پنجابی رہنما نے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف مضبوط مؤقف اختیار کیا ہے اسلئے اس کا ساتھ دینا چاہئےالبتہ اس امر کی ضمانت کوئی بھی دینے کو تیار نہیں کہ اگر کامریڈ نواز شریف نے ایک بار پھر دسمبر2000ء کی طرح سمجھوتہ کر لیا تو کیا ہوگا؟۔
آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کرنا بہت ضروری ہے۔ اولاً یہ کہ سیاسی عمل میں ریاست کے ملازم کسی شخص یا ادارے کی دامے درمے اور سخنے مداخلت اور ہانکے کا شدید ناقد رہا ہوں لیکن جناب نواز شریف اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔
کل تک وہ اداروں کے لاڈلے تھے ایسے لاڈلے کہ دو تہائی اکثریت مانگتے تو پلیٹ میں سجا کر پیش کی جاتی۔ 1990ء 1997ء اور 2013ء کے انتخابی نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کیسے ریاستی اداروں نے انتخابی عمل میں مداخلت کی۔
ایک حاضر سروس جنرل نے آئی جے آئی نامی اتحاد بنوایا۔ دو جرنیلوں سے طے شدہ معاہدے کے تحت وہ میموگیٹ میں کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچے۔
سچ یہ ہے کہ کل وہ سیاست میں فوج اور عدلیہ کے لاڈلے تھے آج ان کی جگہ پیشوائے بنی گالہ شریف لے چکے۔
ثانیاً یہ کہ تمام تر طبقاتی مظالم سازشوں’ کرپشن اور دیگر برائیوں کے باوجود طبقاتی جمہوری نظام کو چلتا رہنا چاہئے کیونکہ اس کے کوچے سے عوامی جمہوریت کیلئے راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت ایک طویل سیاہ اور پرخطر رات مسلط ہونے کا خطرہ ہے۔ اس طویل، سیاہ اور پرخطر رات میں سیاہ پوشوں سے لڑے گا کون۔ جیلیں’ کوڑے’ پھانسی کے پھندے انہیں اعزاز سمجھنے والی نسل کی چند بچی کھچی نشانیاں کیا تیر مار لیں گی۔
طالب علم کو اس سے انکار نہیں کہ کرپشن صرف سیاستدان نہیں کرتے بہت سارے دوسرے طبقات کے بڑے چھوٹے بھی گردن تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر یہ عرض کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی سیاستکاروں کی کرپشن کا ہوا کھڑا کرکے جمہوری نظام’ سیاستدانوں اور اُجلے نظریات کو گالیاں دلوانے والوں کا مقصد اقتدار کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔
ان سطور میں جناب نواز شریف کے پہلے دو ادوار اور خود ان کے سیاسی گارڈ فادر جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور میں محترمہ بینظیر بھٹو کیخلاف روا رکھے گئے سلوک اور مظالم کے حوالے سے کچھ نہیں لکھنا چاہتا۔ البتہ یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے بھٹو صرف پھانسی چڑھ کر بھٹو نہیں بنے اور نا بینظیر، بھٹو صاحب کی بیٹی ہونے کی وجہ سے دو نسلوں کی اُمید بنیں۔ بھٹو نابغہ عصر تھے عصری علوم وعالمی سیاست کے زیر وزبر سے آشنا۔
بینظیر بھٹو نے مارشل لاء کے تاریک دور میں پرعزم جدوجہد کی، اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں لاٹھیاں کھانے کے آغاز سے سکھر جیل کی قید تنہائی میں توڑے گئے عذابوں کا انہوں نے جواں عزمی سے مقابلہ کیا۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ مثالی فہم وفراست اور زیرک سیاستدان بینظیر بھٹو صرف باپ کے نام اور خاندان کی وجہ سے عالمی لیڈر نہیں بنیں۔
سو ہمارے جو دوست نواز شریف کو بھٹو اور مریم کو بینظیر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان کی شفائے کاملہ کیلئے دعا ہی کی جا سکتی ہے’ کوئی موازنہ نہیں ان میں۔ 1956ء میں 25’25ہزار کے دو قرضوں کے حصول کیلئے حکومت کو درخواست دینے والے خاندان کی مالی ترقی اور سیاسی اُٹھان کے پیچھے کیا ہے اس سے وقتی طور پر تو منہ موڑا جا سکتا ہے اس پر مٹی نہیں ڈالی جا سکتی۔ جناب نواز شریف آج جس مقام پر کھڑے ہیں یہاں تک وہ اپنی محنت وہمت سے زیادہ سرپرستوں کے تعاون سے پہنچے تھے یہی تلخ حقیقت ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn