سوشل میڈیا کی طاقت او ربے لگامی کا سب کو ادراک ہے لیکن بدقسمتی سے اپنی اپنی ضرورت کے لئے سبھی اس کی بے لگامی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی دو تازہ مثالیں بھی باعث افسوس ہیں۔ اولاً یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی نواسی آزادی حسین کی شادی کی تقریب کی تصویر کو لے کر ایک نومولود امت کے جانباز جس طرح حقائق کو مسخ کرنے اور دشنام طرازی میں جتے ہوئے ہیں اس سے پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں کی سیاست یاد آگئی جب جماعت اسلامی اور نون لیگ بھٹو خواتین کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔
بھٹو صاحب کی نواسی آزادی حسین اپنے ننھیالی خاندان (یعنی بیگم نصرت بھٹو کے خاندان) میں بیاہی گئیں۔ حسین اصفہانی نامی دلہا بیگم نصرت بھٹو کا عزیز اور برطانوی شہری ہے۔ تقریب کے انعقاد کے لئے برطانیہ کے ایک چرچ کے کمیونٹی سنٹر کو کرایہ پر لیا گیا۔ نئی نویلی امت کے سوشل میڈیا مجاہدین اور تحریک انصاف کے پیجز کا دعویٰ ہے کہ صنم بھٹو کی صاحبزادی کی شادی ایک یہودی سے ہوئی اور وہ بھی چرچ میں۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے حامیوں اور ٹائیگرز کا رویہ ہی انہیں ایک نئی امت قرار دلواتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ نئے مذہب‘ فرقہ اور جماعت میں جانے والے انتہا پسند ہوتے ہیں۔
دوسری مثال بھی تحریک انصاف کے حامیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر نون کی ایک سابق رکن اسمبلی نادیہ راحیل سے منسوب کردہ ویڈیو ہے۔ یہ ویڈیو در اصل سندھ کے ایک جعلی عامل کو موقع واردات پر پکڑنے کے ایک پرانے ٹی وی پروگرام کی ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ نون لیگ کی سابق رکن اسمبلی ایک بزرگ آدمی کو صرف اس لئے پیٹ رہی ہیں کہ اس نے اپنے گھر پر پی ٹی آئی کاجھنڈا لہرا دیا۔ ہزاروں لوگ اس جعلی ویڈیو کو شیئر کرکے مادر زاد گالیاں دے چکے۔ کسی نے بھی ویڈیو میں موجود مرد و زن کی زبان پر غور نہیں کیا کہ یہ زبان ملک کے کس حصے میں بولی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس خاتون سے یہ ویڈیو منسوب کی جا رہی ہے یہ وہی ہیں جنہیں تحریک انصاف کو درخواست دئیے بنا ہی پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار کے طور پر ٹکٹ جاری کردیا تھا اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ نون لیگ میں شامل ہیں پی ٹی آئی کی امیدوار کیوں بنیں۔
سوشل میڈیا کی طاقت کے مثبت استعمال کی ضرورت ہے افسوس کہ بوزنوں کے ہاتھ ادرک آگئی ہے۔ جعل سازی اور دشنام طرازی میں نئی نویلی امت نے وہ ریکارڈ بنائے ہیں کہ ان کا مقابلہ مشکل ہے۔ ہمارے ایک عزیز دوست ہمدرد حسینی کے نام سے سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے علمبردار ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ دستیاب سیاسی قائدین میں عمران خان کی مثال حضرت جنید بغدادیؒ جیسی ہے۔ ہمدرد حسینی صاحب علم نوجوان اور ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ حیران ہوں کہ انہوں نے جناب جنید بغدادیؒ کے مرتبہ کو سمجھے بغیر ہی ایک متنازعہ شخص کو اس مقام پر پہنچا دیا۔ جنید بغدادیؒ بغداد کی اسٹیبلشمنٹ کے حامی یا پسندیدہ کبھی بھی نہیں رہے تھے نہ ہی انہوں نے کسی عباسی خلیفہ کے خفیہ ادارے کے تعاون سے جماعت سازی فرمائی۔
عمران ایک سیاستدان ہیں۔ ان کی سیاسی فہم اور شخصیت دونوں متنازعہ ہیں، تبدیلی اور انقلاب کے نام پر سارے جہاں کا ’’مال‘‘ پی ٹی آئی میں جمع کرکے وہ کیا کرلیں گے یہ وقت بتائے گا۔
انتخابی سیاست میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہوگا۔ سیاسی جماعتوں اور خصوصاً پیشوائے بنی گالہ شریف نے اپنے پیروکاروں کو بے لگامیوں سے نہ روکا تو خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
انتخابی سیاست کے اس ماحول میں نون لیگ کے خلاف کچھ سیاسی و مذہبی گروہوں کاختم نبوتؐ کارڈ استعمال کرنا بھی افسوسناک ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس کا نوٹس نہیں لیا گو فقیر راحموں کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ الیکشن کمیشن چند پوشیدہ قوتوں کے ایماء پر دو باتوں سے آنکھیں چرا رہاہے۔ اولاً نون لیگ کے خلاف پنجاب میں ختم نبوتؐ کارڈ کھیلے جانے اور ثانیاً کچھ کالعدم جماعتوں کے فورتھ شیڈول میں شامل لوگوں کے انتخابی عمل میں شرکت سے، عدم اتفاق کے باوجود تلخ حقیقت یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے۔
کالعدم جماعتوں کو نئے ناموں سے رجسٹریشن کیوں دی گئی؟ اس سوال کاجواب الیکشن کمیشن کو دینا چاہئے۔ یہ سطور لکھ رہا تھا کہ اطلاع ملی کہ سابق سیکرٹری دفاع جنرل(ر) خالد نعیم لودھی کو وفاقی کابینہ میں شامل کیاگیا ہے۔ یہ وہی ذات شریف ہیں جو میمو گیٹ ڈرامے کے وقت وفاقی سیکرٹری دفاع تھے اور پیپلز پارٹی کے خلاف کیا نی پاشا اور چودھری پر مشتمل تگڑم کے اہم ترین ساتھی بھی اس متنازعہ کردار کی وفاقی کابینہ میں شمولیت نے نگران حکومت کے کردار کو مزید چارچاند لگا دئیے ہیں۔ کیا کابینہ میں اس کی شمولیت اور وہ عین اس وقت جب پرانے میمو گیٹ ڈرامے میں نیا رنگ بھرنے کی ’’ رحمتاناں‘‘ کوششیں ہو رہی ہیں۔ کسی نئی تگڑم کے منصوبے کا حصہ ہے؟
یہ سوال اہم ہے۔
فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ کسی نے پیپلز پارٹی سے کہا تھا کہ وسطی پنجاب میں اپنے امیدوار نہ کھڑے کرے پیپلز پارٹی کے انکار کے بعد یہ دائو کھیلا گیا۔ اس دعوے پر فوری طور پر کچھ عرض کرنا مشکل ہے لیکن یہ امر بھی قابل غور ہے کہ عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے قائد پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیوں کیا اور کیوں دبائو کے باوجود انہوں نے پی ٹی آئی کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ فقیر راحموں کے دعوے اور جناب قادری والے قصے پر اگلے کالم میں بات کریں گے ابھی اسی پر اکتفا کیجئے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn