Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

پیپلزپارٹی – چند تلخ حقیقتیں

ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ معاملات دنیا ہوں یا عاقبت ہر دو کو ٹھنڈے انداز سے دیکھنے سمجھنے کی شعوری کوشش کرنے کی بجائے لٹھ بازوں کی طرح میدان میں اُترتے ہیں اور پھر لٹھ بازی کا شکار ہو کر بدزبانی پر اُتر آتے ہیں۔سیاست جب سے تجارت بنی اور مذہب دھندہ زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے۔ تاریخ کے اوراق الٹ لیجئے ہر صفحہ پر نئے کہانی، عبرت، حیرانی اور کج ادائیاں ملیں گی۔ لیکن تاریخ رہنمائی کے لئے نہیں ہوتی اس لئے ہم اپنی اپنی پسند کے صفحے اور کردار سے جی بہلاتے ہیں۔ کچھ طویل ہوگئی تمہید اس کیلئے معذرت، جمعرات کا دن سوشل میڈیا پر طوفان بھرا دن تھا۔ پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے سابق جنرل سکیرٹری ندیم افضل چن تحریک انصاف کو پیارے ہوئے۔ ان کے دو ماموں (ان میں نذرگوندل بھی شامل ہیں اور یہ چن کے سُسر بھی) اور چھوٹے بھائی وسیم افضل چن کئی ماہ قبل پیپلزپارٹی کے کیری ڈبہ سے اُتر کر پی ٹی آئی کے ٹرالر میں سوار ہوچکے۔مزاحمت کرتے ندیم افضل چن بالآخر ہوا کا رُخ دیکھ کر، ماموؤں کا دباؤ، چودھری نثار علی خان کے مشورے اور حلقہ کی سیاست کی مجبوریوں کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت پر آمادہ ہولئے۔ جمعرات کو انہوں نے اپنے ماموں نذرگوندل کے ہمراہ بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی غالباً25اپریل کو عمران منڈی بہاؤالدین میں چن کی قیام گاہ پر جائیں گے جہاں باقاعدہ ’’سنجوگ‘‘ ہوگا۔

ساعت بھر کے لئے آئیے میں آپ کو 2014ء کے سال میں لئے چلتا ہوں۔ وہی ہنگامہ خیز سال جب عمران خان اور جناب پروفیسر طاہرالقادری اسلام آباد میں دھرنادئیے ہوئے تھے۔ اسلام آباد کے ایف 6سیکٹر کے ایک بنگلہ میں مخدوم شاہ محمود قریشی، نذرگوندل، صمصمام بخاری ، امتیازصفدر وڑائچ اور چند دوسرے لوگوں سے ملے۔ تین ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات میں طے پایا کہ ایک دن کے وقفہ سے شاہ محمود قریشی عمران خان کولے کر اسی مقام پر آئیں گے جہاں سے جلوس کی شکل میں یہ 9افراد دھرنے والے مقام کھڑے کنٹینر پر پہنچ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ اس ملاقات کے اگلے روز ندیم افضل چن نے اپنے ماموں نذرگوندل سے تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ عمران خان کے علم میں یہ بات آئی تو اس نے پی ٹی آئی میں شمولیت کے خواہش مندوں کے پاس جانے اور انہیں جلوس کی صورت میں دھرنے والی جگہ پر لانے سے انکار کردیا۔وجہ یہ تھی کہ ندیم افضل چن ہجرت کرنے والوں کے قافلے سے الگ ہوگئے تھے۔

نذرگوندل، صمصمام بخاری ، امتیازصفدر وڑائچ اور دوسرے ایک ایک کرکے بعد کے برسوں میں تحریک انصاف میں شامل ہوتے گئے۔ماموں نذر گوندل کے ساتھ چھوٹے بھائے وسیم افضل چن بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو ندیم افضل چن نے پارٹی چیئرمین کو اپنا استعفیٰ دے دیا ان کا موقف تھا خاندان اور خصوصاً چھوٹے بھائی کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد ان کے پاس پارٹی عہدہ رکھنے کا اخلاقی جواز نہیں رہا۔ پارٹی نے ان کا استعفیٰ قبول نہ کیا اور کام کرتے رہنے کو کہا مگر انہوں نے فعالیت ترک کردی۔ دوسرا منظر پارٹی کے اندر ہے۔قمرزمان کائرہ کے ساتھ جب چن کو سیکرٹری بنایا گیا تو سب سے زیادہ چوُں چراں چودھری منظور اور اس کے پیادوں نے کی قصور سے تعلق رکھنے والے چودھری منظور کو یار لوگ محبت سے ’’جورا ڈوئی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ چودھری منظور پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے مگر اولین دن سے وہ پارٹی کے وسطی پنجاب کے معاملات میں دخل انداز ہوئے۔ قمر زمان کائرہ کی چن کے مقابلہ میں چودھری منظور سے زیادہ بنتی اور نبھتی ہے اس کی وجہ دونوں کا ہم ’’نوالہ‘‘ ہوناہے۔

یہ بھی پڑھئے:  کبھی کے "دن" بڑے کبھی کی "راتیں"

بہر طور ایک مزاحمت کے بعد بالآخر چن جمعرات کو بنی گالہ میں طلوع ہوئے۔ سیاست و صحافت کے مجھ سے طالب علم کو چن کے بارے میں بلاول زرداری کے تبصرے سے اتفاق ہے نہ سوشل میڈیا پر اسے دی جانے والی گالیوں سے ۔ وہ سیاسی عہد شکنی کے مرتکب ہوئے یہی ایک حقیقت ہے۔ نظریاتی جیالے وہ کبھی نہیں تھے۔ ان کے والد افضل چن نون لیگ کے رہنما تھے۔اب بھی وہ کسی اصول ضابطے پر نہیں حلقے کی سیاست نبھانے اور ماموؤں کے مفادات پر قربان ہوئے کیونکہ ان کے دونوں ماموؤں، نذرگوندل اور ظفر گوندل پر اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز ہیں۔ ظفر گوندل پیپلزپارٹی کے دور میں ای او بی آئی کے سربراہ رہے ان پر 6ارب روپے کے گھپلوں کا الزام ہے اس الزام میں وہ گرفتار بھی ہوئے تھے۔

یہ وہ پس منظر اور مجبوریاں ہیں جو ندیم افضل چن کی سیاسی ہجرت کا سبب ہوئیں۔پیپلزپارٹی نے اس خاندان کو پچھلے دور اقتدار میں بہت نوازہ۔بلکہ یوں کہیں کہ نوازشات کی برسات کردی۔ مگر اس کا کیا کریں کہ اب فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ملک گیر پارٹی کوئی نہیں ہوگی۔ قومی اسمبلی میں بھان متی کا کنبہ جوڑ کر حکومت سازی کروائی جائے گی اپر اور سنٹرل پنجاب میں ق لیگ اور تحریک انصاف نون لیگ کا راستہ روکیں گی۔ تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے سرائیکی وسیب میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دیں گے۔سندھ میں جی ڈی اے کے ساتھ ق لیگ اور تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کو باندھنے کا پروگرام ہے بلوچستان میں نئی جماعت تخلیق ہوچکی، پختونخوا میں متبادل انتظامات ہیں ہر قیمت پر اے این پی اور پیپلزپارٹی کا راستہ روکا جائے گا۔ جان کی امان رہے تو عرض کروں پشتین کی پی ٹی ایم کا سیاسی کردار آنے والے دنوں میں قوم پر ستوں کے چودہ طبق روشن کردے گا۔

یہاں ایک بار پھر چند ساعتوں کا وقفہ لیجئے۔ سیاسیات کے اس طالب علم کو جولائی یا اگست میں انتخابات ہوتے دیکھائی نہیں دیتے نون لیگ کے ہارڈ لائنر گروپ کا بندوبست کئے بغیر ہونے والے انتخاب پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ ساری کھیکھڑ کرنے والے اتنے بھی پاگل نہیں کہ ہاتھ کٹوالیں۔جیالوں سے پناہ مانگ کر عرض کروں بلوچستان میں بھر پور خدمت کے باوجود پیپلزپارٹی محبوبہء دلنواز کا مقام حاصل نہیں کر پائی۔ مجھ طالب علم کی رائے میں پیپلزپارٹی کو بلوچستان والے معاملے کی کالک اپنے چہرے پر نہیں ملنا چاہئے تھی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب پنجاب اور مرکز کے اقتدار کے نئے اتحادی، تحریک انصاف، ق لیگ اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے ہوں گے۔ پیپلزپارٹی اب طے شدہ حکمت عملی کا حصہ نہیں رہی۔
’’پاسباں اور مل گئے ہیں آبپارہ کے میخانے کو سیاست کے حرم سے‘‘۔

یہ بھی پڑھئے:  بےنظیر بھٹو قتل کے ذمہ دار کون؟

پیپلزپارٹی آج جس مقام پر کھڑی اور حالات سے دوچار ہے کم از کم میں اس کا سو فیصد ذمہ دار آصف علی زرداری کو نہیں سمجھتا۔2008ء سے2013ء کے درمیان نون لیگ نے ہر قدم پر پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دیا لیکن 2013ء سے اکتوبر 2017ء کے درمیان پیپلزپارٹی نے محبوب اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔مگر زوال اور بکھرنے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے۔ گیلانی دور میں پیپلزپارٹی کے پنجاب سے ایم این اے، ایم پی اے اور ضلعی صدور اس بربادی کے اجتماعی طور پر ذمہ دار ہیں پارٹی ورکرز اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر انہیں وزیر اعظم اور ایوان صدر سے جو کچھ بھی ملا شیر مادر سمجھ کر ہضم کرگئے ملازمتوں کے پروانے تک اسلام آباد میں فروخت کرکے دوسرے اور تیسرے درجہ کے لیڈر گھروں کو گئے۔ پنجاب کے غریب ورکروں کے لئے صدر زرداری نے جو آٹو رکشے دیئے تھے وہ مارکیٹ میں فروخت ہوئے مشکل سے چند لوگوں تک ایوان صدر کی امداد پہنچ پائی۔ بجا ہے کہ پچھلے دور میں میڈیانے چین نہیں لینے دیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اوپر سے نیچے تک ہر شخص نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آخری موقع ہے۔راجہ ریاض نامی ایک صاحب پنجاب میں سینئر وزیر تھے۔انہوں نے اپنے خاندانی دھوبی کے نام پر صدر زرداری سے تین لاکھ کی امداد منظور کروائی اور ڈکار گئے۔یہ بھی آجکل تحریک انصاف میں ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ساری بربادیوں کا ذمہ دار زرداری کو قرار دینا ناانصافی ہے اس نا انصافی میں زیادہ حصہ چھوٹے چوروں اور فراڈیوں کاحصہ جو اپنی چوری اور فراڈ کو چھپانے کے لئے ملبہ زرداری کی مفاہمتی سیاست پر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ 1988ء میں پیپلزپارٹی نے نظرئیہ چھوڑ کر سمجھوتہ کیا تھا اور آج تک وہ سمجھوتوں کی سیاست کی اسیرہے۔جناب زرداری کوئی پرانے نظریاتی کارکن نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر کی حثیت سے حکومت اور پیپلزپارٹی کا حصہ بنے تھے اسی رشتے سے پارٹی کے مالک ہوئے۔ وہ اگر فرشتے نہیں ہیں تو مجسم شیطان بھی ہر گز نہیں۔ زرداری ہوں یا کوئی اور سیاستدان ہمیں انہیں انسان ہی سمجھنا چاہئے ان میں پیغمبروں یا ولیوں والے اوصاف تلاش کرنے اور اندھی عقیدت کا اسیر ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان جمہوری ریاست تھا نہ ہے سیکورٹی سٹیٹ میں عوام کی رائے کی اہمیت نہیں ہوتی۔ حرف آخر یہ ہے کہ مقبول سیاسی قیادت اور ملک گیر پارٹی اسٹیبلیشمنٹ کو گوارہ نہیں اس حقیقت کے باوجود خواب دیکھنے ہیں تو خوشی سے دیکھتے رہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس