نونی پیارے لاٹھیاں بھالے اور توپیں لے کر پیپلز پارٹی کے دیوالے ہیں۔ کامریڈ نواز شریف کے ملازمین، کمیوں اور کمرشل لبرلز کا آخری فتویٰ یہ ہے کہ جو میاں نواز شریف کے ساتھ نہیں وہ فوج کا ایجنٹ ہے۔ ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں چھوٹے کامریڈ حسن نواز ان دنوں ”داستان جدوجہد جاتی امراء شریف” کے نام سے تاریخ مرتب کر رہے ہیں۔ چھوٹے کامریڈ کی مرتب کردہ تاریخ کے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرنے سے قبل یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ بڑے کامریڈ اور کامریڈ پتری کا سارا شور شرابہ ذاتی مال و اسباب کے تحفظ کے لئے ہے۔ بالا دست اشرافیہ اور ان کے درمیان دنگل ہے ہی نہیں خود نواز شریف چھوٹے بھائی کو قائم مقام صدر نون لیگ بنوانے کے بعد محسوس کر رہے ہیں کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی بلوچستان کے آزاد سینیٹروں کے ایک طرف کھڑی ہے اور دوسری طرف تبدیلی والے بابو یعنی پیر آف بنی گالہ عمران خان۔
سیاست سب کا حق ہے مگر ن لیگ کی ضد اور دھونس یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس کے ساتھ مل کر سیاسی میچ کھیلے۔ چلیں کسی اگلے کالم میں اس پر تفصیل سے بات کریں گے فی الوقت یہ کہ قارئین کو یاد ہوگا کہ سال بھر قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ مستقبل کے نظام حکومت میں پی پی پی ‘ تحریک انصاف اور ق لیگ ایک ہی جہاز میں سوار ہوں گے۔ ثانیاً یہ کہ ہم بنگلہ دیش ماڈل کی طرف بڑھ رہے ہیں پردہ غیب سے کیا ظہور ہوتا ہے نظارہ کرنے کے لئے انتظار کیجئے۔ البتہ یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی ساڑھے 9سال کا حساب چکانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان دنوں متوالوں اور سوشل میڈیا مجاہدین کو رضا ربانی پر بہت پیار آرہا ہے۔ عجیب سا پیار ہے پیپلز پارٹی اور زرداری کے لئے گالی ہے اور رضا ربانی کے لئے محبت کے چشمے ابل رہے ہیں۔ رضا ربانی کا نام مشترکہ امیدوار برائے چیئر مین سینٹ پیش کرکے نواز شریف کو جو مایوسی ہوئی اس کا اندازہ خواجہ آصف کے بیان سے لگایا جاسکتاہے حالانکہ ان کی جماعت نے زرداری سے راہیں جدا کرنے کی بجائے 2009ء میں کیانی پاشا جوڑی کے ساتھ بھاگ نکلنے کا تجربہ کیا تھا۔ خیر چھوڑئیے آئیے آپ کو چھوٹے کامریڈ حسن نواز کی ”داستان جدوجہد جاتی امراء شریف” سے نئی تاریخ کے چند نمونے پیش خدمت ہیں جی بہلائیں کیونکہ تاریخ ایسی ہی ہوتی ہے۔ 13اگست 1947ء تک اس خطے (موجودہ پاکستان) میں جو ولن تھے 14اگست 1947ء کو وہ ہیرو ہوگئے۔ کامریڈ حسن نواز ”داستان جدوجہد جاتی امراء شریف” میں رقم طراز ہیں۔ ٭جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں جب پاکستان کے حریت پسند عوام میاں نواز شریف کی قیادت میں جدوجہد کرتے ہوئے جیلیں کاٹتے، کوڑے کھاتے اور تشدد برداشت کر رہے تھے۔ تب پیپلز پارٹی فوجی آمر کی حکومت میں شامل تھی اور آصف زرداری سندھ کے وزیر خزانہ کے طور پر اپنا کاروبار منظم کر رہے تھے۔
٭داستان جدوجہد جاتی امراء شریف کے مطابق آصف زرداری میثاق جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے جنرل کیانی کی خوشنودی کے لئے کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کیس لے کر گئے۔ یہ زرداری ہی تھے جنہوں نے پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کی اور مشرف کو ان اوچھے ہتھکنڈوں پر اکسایا جو انہوں نے شریف خاندان کے خلاف استعمال کئے لیکن جب منہ کی کھانا پڑی تو زرداری پرویز مشرف سے معاہدہ جلاوطنی کرکے ملک چھوڑ گئے۔ کتاب کے مطابق جمہوریت کی علمبردار بنی پھرتی پیپلز پارٹی نے 1988ء کے انتخابات کے دوران جاگ سندھی جاگ کا نعرہ لگایا اور شریف خاندان کی بعض خواتین کی افسوسناک تصاویر پنجاب اور سندھ میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پھنکوائیں۔
کتاب کے مطابق زرداری رات کی تاریکی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں کرتے اور انہیں آمادہ کرتے رہے کہ وہ شریف حکومت کو نکال باہر کریں پھر انکل خلیفہ اردگان مدد کو آئے۔ انہوں نے راحیل شریف کو انقرہ بلوا کر سمجھایا کہ زرداری ڈبل گیم کر رہا ہے۔” داستان جدوجہد جاتی امراء شریف” میں یہ بھی انکشاف کیاگیا ہے کہ لندن والے فلیٹس زرداری کے ہیں اس نے ہمیں کرائے پر دئیے تھے پھر کسی سے ساز باز کرکے ان کے کاغذات ہمارے نام کے بنوا دئیے۔ کتاب کے مطابق مسلم لیگ (ن) پچھلے 111 سال سے عوام کے حق حکمرانی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اس جدوجہد کے دوران ہمارے نصف سے زیادہ اثاثے سیاسی سرگرمیوں پر خرچ ہوگئے۔ کتاب میں نون لیگ کے چند وفاقی وزراء کی بطور وزیر دوسری شادی کے قصے بھی دلچسپ انداز میں تفصیل کے ساتھ لکھے گئے۔ کتاب کا انتساب حسن نواز نے اپنی ہمشیرہ مریم نواز کے نام کیا ہے۔ کامریڈ حسن نواز شریف لکھتے ہیں ان کی ہمشیرہ مریم نواز ہی ہمارے خاندان کا مستقبل ہیں۔ زرداری رجیم اور تبدیلی خان دراصل مریم کی عوامی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ جس وقت جنرل مشرف نے میاں نواز شریف سے بندوق کے زور پر زبردستی معافی نامہ پر دستخط کروائے تھے ان یعنی مشرف کے ساتھ والی کرسی پر آصف علی زرداری بیٹھے مسکرا رہے تھے۔” داستان جدوجہد جاتی امراء شریف” شریف خاندان کی 111 سالہ سیاسی و کاروباری جدوجہد کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ لندن میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران شام کے اوقات میں ہائیڈ پارک کے قریب لہوری مرغ چنے فروخت کیاکرتے تھے جس سے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے تھے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn