جناب شیخ (شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی) کی خانقاہ پر نظر پڑتےہی فقیر راحموں کے قدم تھم گئے۔ "کیا ہوا”؟ جواب ملا "حضرت سے کچھ سوالات کرنے ہیں”۔ "سوالات”؟ ” جی ہاں”۔ پھر ہم دونوں تلاشیوں کے مرحلے طے کر کے خانقاہ کے صحن میں بیٹھ گئے۔ "شاہ جی! کبھی کبھی تاریخ سے بھی باتیں کر لینی چاہیں”۔ اس نے کہا۔ کیا جواب دیتا، وہ من موجی سا شخص ہے۔ اپنی دھن میں مست۔ بابری مسجد کے سانحہ والے دن کی صبح جناب شیخ کی خانقاہ پر جانے کی ضد نے بستر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پاک دروازہ کے چوک پر پہلی تکرار اس بات پر ہوئی کہ النگ کے راستے دولت گیٹ پھر اسلامیہ کنڈر گارڈن سکول کے ساتھ والی سڑک سے اوپر جایا جائے یا صرافہ بازار اور مسجد ولی محمد کے ساتھ سے چوک بازار کا راستہ لیتے ہوئے حشمت محل سینما والی گلی سے علمدار کالج تک کا سفر طے کیا جائے۔ تکرار طویل ہوئی تو میں نے کہا یار ٹاس کر لیتےہیں۔ "نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ آج کی صبح میری ہے شاہ جی۔ آپ چپ چاپ پیروی کریں”۔ حکم صادر ہوا۔ مارشل لاء کے ضابطہ 43 کی طرح کے حکم جاری کرنے کا اسے بہت شوق ہے۔ اس کے قدم صرافہ بازار کی طرف اٹھے تو خامشی سے پیروی شروع کر دی۔ کچھ فاصلے پر دربار حضرت موسیٰ پاک کے مرکزی دروازے پر پہلا پڑاؤ ڈالا۔ ملتان کے گیلانی سادات کے بزرگ اپنی علمی حیثیت اور روشن فکرکی بنا پر تاریخ کو روشن رکھنے میں جان سے گئے۔ کیا انسان تھے۔ انسان سازی کا مکمل ادارہ، چھوت چھات سےمحفوظ۔ نور علم تقسیم کرتے اپنے لہو کا غسل لے کر مالکِ حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگئے۔ متحدہ ہندوستان نے ان کی سی فکری استقامت والے لوگ کم کم ہی دیکھے۔ چند جی اور ہوئے۔ سچل، شاہ لطیف، شاہ حسین، بلھے شاہ، دارہ شکوہ، میاں میر اور سرمد۔ سبھی ایک ہی تسبیح کے دانے تھے۔
سستائے اور قدم بڑھا دیے۔ بازار بند تھا۔ سنار بھلا تڑکے کے ساتھ کب بازار کھولتے ہیں۔ ملتان کے صرافہ بازار کی اپنی ہی تاریخ ہے۔ کئی بار اجڑا پھر بسا، حملہ آوروں نے جی بھر کے لوٹا۔ ہنر مند پھر سے کاروبار میں جت گئے۔ صرافہ بازار ختم ہوا۔ یہ مسجد ولی محمد ہے۔ سوا چار سو سال پرانی مسجد۔ جس عہد میں تعمیر ہوئی اس عہد کی فنی تعمیر کا روشن نشان ہے۔ ملتانیوں کے دلوں میں آباد ہے یہ مسجد۔ صبح کاذب سے کچھ دیر بعد کے ماحول میں مسجد کی سیڑھیاں خالی تھیں لیکن میلی تھیں۔ "صفائی نصف ایمان ہے” دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آدھے ایمان کی کیسی درگت بناتے ہیں ہم کلمہ گو۔ مسجد ولی محمد کے مقام سے حسین آگاہی کی طرف چلتے ہوئے کچھ فاصلے پر الٹے ہاتھ مسجد پھول بٹ ہے۔ 1947ء کے بٹوارے میں ہندوستان کےاضلاع روہتک حصار سے آنے والی قریشی برادری کے پیر حضرت مولانا حامد علی خان مرحوم نے کئی دہائیوں تک اس مسجد میں خطابت کے جوہر دکھائے۔ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کے حال سے یکسر مختلف دھیمے انداز میں گفتگو کرنے والےمولانا کو لوگ عقیدت سے پیر جی کہا کرتے تھے۔ اس مسجد کی شہرت کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ بھٹو صاحب کےخلاف پی این اے کی تحریک کے دوران احتجاجی جلوس یہاں سے نکلا کرتے تھے۔ چند ساعتوں کے وقفہ سے ہم آگے چل دیے۔ بند دکانوں کے نئے مالکان نجانے اب کون ہیں۔ یا د آیا یہیں کہیں وہ دکان بھی تھی جہاں بھٹو صاحب کی پھانسی والے دن حلوہ تقسیم ہوا تھا۔ اس قصہ کو اٹھا رکھتے ہیں۔ قدم بڑھتے رہے اور چوک بازار کے اختتام پر وہ رستہ آگیا ۔ یہاں سےسامنے کی سمت میں سیڑھیاں اترنی تھیں۔ سامنے حشمت محل سینما دکھائی دیا۔ فقیر راحموں نے سیڑھیاں اترنے سے قبل اس راستہ کی طرف ایک نگاہ ڈالی جو گلی کمنگراں والی کے نام سے معروف ہے ایک لمبی گلی جس کا اختتام دہلی دروازہ پر ہوتا ہے۔
مسافروں کا سفر جاری تھا۔ حشمت محل کے سامنے والی گلی سے سرکلر روڈ پر آگئے۔ ہمارے بچپن کے اس مقام والی جگہ کا نقشہ کافی تبدیل ہو چکا تھا۔ ترقی کے دلدادہ افراد اور اداروں نے تاریخ کی نشانیوں کو مٹا دیا۔جو بچ رہی ہیں وہ کتنے دن اور سال باقی رہیں گی کس کو معلوم۔ تعمیر سے ترقی تو ہوتی ہے۔ ماضی پر حال کی تعمیر بہت کچھ کھا جاتی ہے۔ ملتان اب پہلے جیسا نہیں رہا میں نےکہا۔ جواب ملا شہر آدمیوں کے جنگل میں تبدیل ہونے لگیں تو ایسا ہی ہوتاہے۔ قدم روک کر فقیر راحموں کی طرف دیکھا۔ سپاٹ چہرہ مگر کرب چھپائے نہیں چھپ رہا تھا۔ ہم پھر چلنے لگے۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ کی طرف جانے والی سڑک کے دائیں ہاتھ ہماری مادر علمی ہے۔ پہلی چار جماعتیں اسی سکول میں پڑھی تھیں۔ بائیں ہاتھ علمدار حسین اسلامیہ کالج کی عمارت ہے۔ اس مقام پر مرحوم محمد سعدی خان کی یادوں نے آن پکڑا۔ دوست نواز سعدی خان 1977ء کے تعلیمی سال میں اس درسگاہ کی انجمن طلباء کا صدر تھا۔ چھلاوے کی رفتار سے چلنے والے سعدی خان کو سفرِ حیات طے کرنے کی بہت جلدی تھی۔ اس جواں مرگ کی یادیں جب بھی دستک دیتی ہیں ہم دونوں پلک جھپکنے میں ساڑھے تین دہائیاں پیچھے کے برسوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جواں مرگ محمد سعدی خان دوست نوازی میں یکتا تھا۔ ہم ملتان میں ہوتے تو قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع کیفے عرفات پر اس کے ساتھ شامیں گزرتیں۔
کچھ دیر سستانے کے بعد اوپر کی جانب بڑھنے لگے۔ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی کی خانقاہ کا گنبد سامنے تھا۔ کبھی اس گنبد سے پہلے نگاہیں پربلاد کے مند رکے برج پر پڑتی تھیں۔ ملتان کی تاریخ کی قدیم ترین نشانی پربلاد کا مندر اب ملبے کا ڈھیر ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لیا جنون میں مبتلا "اہلِ ایمان” نے۔ فقیر راحموں نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا "شاہ جی! جس عمارت کو لوگ پرلاد کا مندر کہتے تھے یہ تو اس خطے کی سب سے قدیم درسگاہ تھی۔ فنِ تعمیر تعصب کا شکار ہوا تو درسگاہ کو مندر کہا جانے لگا”۔ "یار جو بھی تھا، تھی ملتان کی قدیم زندہ نشانی”۔ آنکھیں بھر آئیں جنم شہر کی قدیم نشانی کو ملبے کےڈھیرمیں تبدیل دیکھ کر۔ مجھے فقیر راحموں کی آواز سنائی دی۔ کہہ رہا تھا”یاد رہے ایک دن عقیدت مندوں نے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی سے عرض کیا شیخ محترم! ہم اس مندر کو گرا کر خانقاہ کو توسیع نہ دے لیں۔ شیخ کا چہرہ بلند ہوا۔ کہنے والوں کو گہری آنکھوں سے دیکھا اور کہا”عمارتیں تاریخ پر نہیں تاریخ میں بنتی ہیں۔ پربلاد کی نشانی اپنی جگہ قائم و دائم رہے گی”۔وضعداری اور تاریخ کا احترام بزرگوں کے ساتھ ہی رخصت ہوا۔ جی چاہا شیخ سے شکوہ کروں۔ حضرت!تاریخ کی جس نشانی کو آپ نے محفوظ رکھا اس پر تنگ نظروں کا ہجوم چڑھ دوڑا۔ آپ کی خانقاہ کے پہلو میں تاریخ کا ملبہ بکھرا پڑا ہے۔ شیخ آپ کی روح کو تکلیف تو پہنچی ہو گی۔ یوں لگا جیسے شیخ کہہ رہے ہوں "طالب علم! جو لوگ تاریخ سے دشمنی پر اتر آئیں وہ حال کی ناقدری کا شکار ہو کر گم ہو جاتے ہیں۔
میں نے فقیر راحموں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ "خیریت”؟ میں نےدریافت کیا۔”ہاں۔ جو شیخ فرما رہے تھے اس نے کلیجہ چیر کر رکھ دیا۔شاہ! ہمارے عہد کے لوگ بھی عجیب ہیں۔ تاریخ سے اتنی بھونڈی دشمنی۔ پتہ نہیں لوگ سوچتے کیوں نہیں”۔میرا جی چاہا اسے کہوں” اپنی مٹی سے بچھڑے لوگ تاریخ کو بھی اپنی طرح بے وطن کرنے کا شوق پال لیتے ہیں”۔ ایک بار پھر ایسا لگا کہ جناب شیخ کہہ رہے ہیں”علم و عمل سے دوری اور زندگی کا تعاقب آدمی کو جانور بنا دیتا ہے”۔ عین ان لمحوں میں مجھے شاہ عبدالطیف بھٹائی یاد آئے۔ شاہ نے کہا تھا "یار کے قدموں پر سر ہی فدا ہو تو قربان ہونے والے کو زندگی ملتی ہے۔ تاریخ پر مٹی ڈالنے اور مکالمے کو کفر قرار دینے والے کیا جانیں کہ فرزانگی نصیب والوں کا انتخاب کرتی ہے”۔ پھر سے جناب شیخ کی آواز سنائی دی۔ کہہ رہے تھے "علم کاروبار بن جائے تو انسان سازی کا عمل رک جاتا ہے”۔ بہت ادب کے ساتھ عرض کیا "حضرت! اب تو درسگاہوں سے دولے شاہ کے چوہے نکل رہے ہیں” غالباََوہ مدعا سمجھ گئے۔ بولے "درسگاہیں کہاں ؟ کارخانے ہیں۔ کارخانوں میں جیسا خام مال جائے گا ایسا ہی سامان تیار ہوگا”۔ ہم دونوں نے فاتحہ کے لئے ہاتھ بلند کر دیئے۔ شیخ سے اجازت چاہی اور خانقاہ کے احاطہ سے باہر نکل آئے۔ "شاہ! آؤ شاہ شمس تبریز کی خانقاہ پر چلتے ہیں” فقیر راحموں بولے۔ ہم دونوں چپ چاپ راستہ طے کرنے لگے۔ "آج کا سفر کس وقت ختم ہو گا”؟ میں نے فقیر راحموں سے دریافت کیا۔ "تھک گئے”؟ اس نے دریافت کیا۔”نہیں” "پھر چلتے رہو۔ ماضی سے ملاقات اتنی آسان نہیں ہوتی” اس نے بات مکمل کر کے میری طرف دیکھا۔ مجھے سچل یاد آئے۔ کہا تھا”اپنی ذات سے یار کی دہلیز تک کا سفر سب سے مشکل کام ہے”۔ "یار کی دہلیز”؟ فقیر راحموں نے پوچھا۔”ہاں” اثبات میں میں نے سر ہلا دیا تھا۔ جواب ملا”من و تو کا جھگڑا کب کا ختم ہوا۔ ہم ہی ہم ہیں اور وہ ہی وہ”۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn