Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

افغانستان‘ المیوں سے بھرے پانچ دن | حیدر جاوید سید

قندھار سے کابل اور غور سے ہرات تک کے المناک واقعات میں پانچ دنوں کے دوران 213 سے زیادہ افغان مرد و زن اور معصوم بچے( ان میں کابل کیڈٹس کی بس پرحملے میں شہید ہونے والے بھی شامل ہیں) شہید ہوچکے۔ قندھار میں فوجی چھاؤنی پر حملہ ہوا کابل میں پہلے مسجد امام زمانہ پر خود کش حملہ ہوا پھر اگلے روز کیڈٹس کو لے جانے والی بس پر۔ غور کے ضلع دولینہ میں نماز جمعہ ادا کرکے مسجد سے باہر آنے والے نمازیوں پر مسجد کے مرکزی دروازے پر خودکش حملہ آور نے حملہ کیا۔ ہرات میں ایک پولیس افسر کو نشانہ بنانے کی اطلاعات ہیں۔ پانچ دنوں سے افغانستان سے مسلسل سانحات برپا ہونے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ پانچ دنوں میں دہشت گردی کی سات وارداتیں اور ان میں ہونے والا جانی نقصان خون کے آنسو رلاتا ہے۔ اہل افغانستان 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں سے جاری آگ و خون کے کھیل کو بھگت رہے ہیں۔ افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ‘ جنیوا معاہدہ کے بعد پھوٹی خانہ جنگی‘ کابل پر قبضہ کے لئے احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کے جنگجوؤں کی خوفناک جنگ‘ طالبان کا ظہور اور بے رحم انداز میں قیام امن کے لئے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جانے کا بھیانک عمل۔ 9/11 کے بعد سے شروع ہوا انسانیت کشی کا کھیل مل ملا کر ابتری کے سارے ادوار 10لاکھ سے زیادہ افغانوں کو موت کی نیند سلا چکے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے سات میں سے تین واقعات کی ذمہ داری امریکہ کی سرپرستی میں افغانستان میں منظم ہوتی داعش نے قبول کی، 2کی طالبان نے اور دو کا والی وارث کوئی نہیں بنا۔ مساجد اور عورتوں و بچوں پر حملے قدیم افغان روایات سے انحراف ہے۔ یہ انحرافی کون ہیں‘ کسی سے ان کی شناخت پوشیدہ نہیں۔ قبل ازیں بھی ان سطور میں عرض کرچکا کہ کچھ عرصہ قبل تک خطے کی بعض عسکری تنظیمیں جو طالبان کی اتحادی سمجھی جاتی تھیں اور ان کے تعاون سے اپنے ملکوں کی حکومتوں سے برسر پیکار تھیں۔ اب داعش کی امارات خراسان پر بیعت کرچکی ہیں۔ داعش کا حلیف بنتے ہی ان تنظیموں نے افغانستان کو ہدف بنا لیا ہے۔ ان میں سے بعض تو اپنی مسلکی گراوٹ کا غصہ افغانوں پر نکال رہی ہیں اور بعض داعش کے اصلی سرپرستوں کے اہداف کے حصول کے لئے سر گرم عمل ہیں۔ ترکمانستان اسلامی موومنٹ اور ازبکستان اسلامی جہاد سازی نامی تنظیموں کاکردار بہت ہی گھناؤنا ہے۔ ان تنظیموں کے جنگجو داعش کے پلیٹ فارم سے افغانستان میں صوفی سنیوں اور ہزارہ شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں۔ کابل کی مسجد امام زمانہ اور غور کے ضلع دولینہ کی مسجد پر حملوں کے پیچھے وہی سوچ ہے جس نے عراق و شام میں بربادیاں بوئیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تجزیہ نگاروں کی بڑی اکثریت مغرب کی اطلاعاتی صنعت سے ذہنی طور پر مرعوب ہے۔ وہ سانحات کا زمینی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی بجائے مغربی اطلاعات کو آگے بڑھاتی ہے۔ کاش ان میں سے کوئی امن عالم اور انسانیت کے تحفظ کے عالمی ٹھیکیدار امریکہ بہادر سے بھی یہ سوال کرے کہ اگر افغانستان میں اس کی اپنے اتحادیوں کے ہمراہ موجودگی کا مقصد افغان عوام کو عسکریت پسندی سے نجات دلانا ہے تو پھر افغانستان میں قائم امریکی بیس کیمپ داعش کے سہولت کار مقامات کے طور پر کیوں سامنے آرہے ہیں۔ معاملات کو سمجھنے کے لئے ہمیں سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دو ہفتہ قبل کے ایک انٹرویو کو دوبارہ پڑھنا سننا ہوگا جس میں انہوں نے داعش امریکہ تعلقات کے حوالے سے سنگین الزامات عائد کئے تھے۔ کرزئی کہتے ہیں’’ امریکی داعش کے جنگجوؤں کو عراق اور شام سے افغانستان منتقل کر رہے ہیں۔ یہ امریکی حکام ہی ہیں جو افغانستان کو داعش کے لئے نیا میدان جنگ بنانے میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں‘‘ ۔ داعش کی خراسانی امارت کو منظم کرنے اور اسے افغان شہریوں کا لہو بہانے کی کھلی چھٹی دینے کے پیچھے موجود امریکیوں کے مقاصد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ افغان سرزمین پر موجود سات ٹریلین ڈالر کی معدنیات جن میں یورینیم بھی شامل ہے پر قبضے کرنے کی نئی حکمت عملی ہے،۔ اس کالم کے قارئین کو یاد ہوگا کہ 1990ء کی دہائی میں جب امریکہ افغانستان میں طالبان کو اپنے اتحادیوں کے ذریعے آگے بڑھا رہا تھا تو اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ دنیا کے محفوظ ترین سات ٹریلین ڈالر کے قدرتی وسائل ہتھیانے کی امریکی پالیسی پر عمل شروع کردیاگیا ہے۔ اگلے مرحلہ میں تیل اور دوسری معدنیات تلاش کرنے والی امریکی کمپنیوں اور طالبان کے درمیان معاہدوں کے لئے مذاکرات بھی ہوئے۔ ایک دو سمجھوتے ہوئے بھی مگر پھر وسائل کے حصے اور منافع پر تنازعہ برپا ہوا اور امریکیوں کی طالبان سے ٹھن گئی۔ 9/11 کے بعد تو دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ عراق اور شام کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار داعش ہی کی معرفت ہوئی۔ داعش سے چوری کا تیل خریدنے والوں میں اسرائیل اور ترکی پیش پیش تھے۔ اسرائیلی کمپنیوں کے پیچھے تو مکمل طور پر امریکی سرمایہ کار موجود تھے البتہ ترکی کی دو تیل کمپنیوں میں سے ایک جناب اردگان کے صاحبزا دے اور داماد کی تھی اور دوسری امریکی سرمایہ کاروں کی۔ یہ وہ نکتہ ہے جو یہ سمجھاتا ہے کہ امریکی پرانی حکمت عملی میں ناکامی کے بعد اب داعش کو میدان میں اتار رہے ہیں تاکہ اس کی خراسانی امارت خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے کردار ادا کرسکے اور امریکہ حسب سابق امن و انسانیت کا جعلی دیوتا بنا اپنے راگ الاپتا رہے۔ اندریں حالات ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت بھی اپنی امریکہ نواز پالیسیوں پر از سر نو غور کرے محض غور ہی کافی نہیں بلکہ اسے امریکیوں سے پوچھنا چاہئے کہ داعشی جنگجوؤں کو افغانستان میں منظم کرنے کی اس کی پالیسی کے مقاصد کیا ہیں۔ داعش کے عفریت کو مزید کھل کر کھیلنے کے مواقع دئیے گئے تو افغانستان ایک بار پھر اس وحشی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتاہے جس کاذائقہ عراق اور شام چکھ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  آئیڈیلز دوسرا حصہ

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس