Qalamkar Website Header Image

جھنگ کے ضمنی نتائج، سیاسی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ! – حیدر جاوید سید

haider-javed-newجھنگ سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 78 کے ضمنی انتخابات کا نتیجہ یہ ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے صاحبزادے اور فورتھ شیڈول میں شامل مسرور جھنگوی 48،562 ووٹ لے کر منتخب ہو گئے۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار آزاد ناصر نے 35،469 ، پیپلز پارٹی کے سرفراز ربانی نے 3،671 ، تحریک انصاف کے ارفع مجید نے 2،820 ووٹ لئے۔ 216،562 رائے دہندگان پر مشتمل انتخابی حلقہ کے نصف سے بھی کم ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ مسرور جھنگوی اولاََ سپاہ صحابہ کے سربراہ احمد لدھیانوی کے متبادل امیدوار تھے۔ لدھیانوی ایک عدالتی فیصلے سے نااہل ہوئے تو مسرور کو سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی (دونوں کالعدم تنظیمیں ہیں۔ سپاہ صحابہ مسرور کے والد نے قائم کی تھی اور لشکرِ جھنگوی اس کے والد کے نام پر قائم ہونے والی عسکری تنظیم ہے) نے اپنا مشترکہ امیدوار قرار دیا۔ نقصِ امن، بلوے، اقدام قتل، قتل اور منافرت بھری تقاریر کے درجنوں مقدمات کے نامزد ملزم کا جھنگ کے ضمنی انتخاب میں 50 ہزار کے قریب قریب ووٹ لے کر منتخب ہو جانا اچھنبے کی بات ہرگز نہیں۔ جمعرات یکم دسمبر کی شام جب سے پی پی 78 جھنگ کےانتخابی نتائج سامنے آئے ہیں ان کی بنیاد پر جاری بحث میں جذباتیت زیادہ اور معروضی حالات کا سنجیدہ تجزیہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے برادرِ عزیز عامرحسینی نے سوشل میڈیا پر معروضی حالات کے تناظر میں چند سطریں رقم کیں تو فرقہ پرستوں کے سے عقیدے کے حامل پیپلز پارٹی کے چند دوستوں کو ناگوار گزریں۔ آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔ اولاََ یہ کہ 1988ء کے بعد سے اس ملک میں سیاسی جماعتیں اپنے نظریات پر نہیں شخصیت پرستی اور خاندانی (پارٹی مالک خاندان) کی وفاداری سے عبارت ہیں۔ ثانیاََ یہ کہ بلاشبہ پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو طالبان اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف واضح نکتہ نظر رکھتے ہیں مگر پیپلز پارٹی کو پھر کچلے ہوئے طبقات کی ترقی پسند جماعت کے طور پر منظم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ ضمنی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض مذہبی جماعتوں کے کردار کو کوستے جیالے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران خود پیپلز پارٹی نے بھی اسی کالعدم جماعت کے ایک سیاسی چہرے راہِ حق پارٹی سے انتخابی تعاون کیا ۔
کچھ پیچھے چلے جائیں تو 1990ء کی دہائی میں جب پی پی پی نے پنجاب میں حامد ناصر چٹھہ کی جونیجو لیگ کو وزات اعلیٰ دے کر صوبائی حکومت بنائی تھی تو سپاہ صحابہ کے رکن صوبائی اسمبلی شیخ حاکم علی اس کابینہ کے وزیر تھے۔ پچھلے 31 برسوں کے دوران کس جماعت یا فوجی آمر اور نگران حکومت نے سپاہ صحابہ کو اتحادی نہیں بنایا؟ یہاں تک کہ اکیسویں صدی کے عظیم روشن خیال جنرل پرویز مشرف نے بھی 2002ء میں اعظم طارق کے ایک ووٹ کی مدد سے نگ پورے کر کے ظفر اللہ جمالی کو وزیرِ اعظم بنوایا تھا۔ جناب نواز شریف کی مسلم لیگ نے 2013ء کا انتخاب پنجابی طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی کی مدد سے جیتا تھا۔ آج بھی مسلم لیگ (ن) کے بہت سارے ارکان اسمبلی سپاہ صحابہ کو بھاری مالی عطیات دیتے ہیں۔ مزدور کسان سیاست کے ٹارزن جمشید دستی اپنے حلقہ انتخاب میں سپاہ صحابہ کے تعاون پر ہمیشہ "ممنون حسین” ہی رہے۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ گو مسرور جھنگوی آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے مگر وہ سپاہ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، جماعت اسلامی، جے یو آئی (س) کے اعلانیہ اور جے یو آئی (ف) کے غیر اعلانیہ مشترکہ امیدوار تھے۔ مسرور جھنگوی کے بڑے مدِ مقابل حاجی آزاد ناصر بھی انجمن سپاہ صحابہ کے سابقین میں ہیں۔ ان کا خاندان بھی شیخ وقاص اکرم کے خاندان کی طرح سپاہ صحابہ کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی بغاوت کسی فکر کی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ سیاسی قیادت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ مگر اس انتخاب میں اصل کردار مخدوم سید فیصل صالح حیات کا ہے۔ ان کے شدید ترین حریف بھی یہ تسلیم کرتےہیں کہ وہ پی پی 78 کے حلقہ میں لگ بھگ 20 ہزار ووٹوں پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ انا پرست فیصل صالح حیات نے 2002ء کے انتخابات میں اعظم طارق کا مقابلہ کرنے والے پروفیسر طاہر القادری کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی "لئو جی! ہن ترکھاناں داپتر جھنگ دا ایم این اے بنسی” (لو جی اب ترکھانوں کا بیٹا جھنگ کا ایم این بنے گا) اس الیکشن میں فیصل صالح حیات نے مسرور جھنگوی کی حمایت کی۔ یہ حمایت دراصل شیخ گروپ سے ان کی سیاسی عداوت کی مرہون منت ہے۔ ترکھان کے بیٹے کی مخالفت کرنے والے کو کمہار زادے کی حمایت کامیابی کا سہرا مبارک ہو۔ جھنگ کے ضمنی انتخابات کے نتائج، موقع پرستی، کج ادائیوں، بے ضمیریوں، دوغلے اور سفلے پن سے عبارت ہیں۔ احمد لدھیانوی نے عدالتی فیصلے پر بحالی کے بعد مسرور جھنگوی کے حق میں دستبرداری کا فیصلہ اسی وجہ سے کیا تھا کہ اولاََ مسرور جھنگوی اس مرحلہ پر دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ ثانیاََ فیصل گروپ مسرور کی تائید کر رہا تھا۔ ثالثاََ سپاہ صحابہ کے دو امیدواروں کی صورت میں مخالف جیت سکتے تھے۔ پیپلز پارٹی چاہتی تو ایک بہتر امیدوار لا کر مختلف جماعتوں اور برادریوں کا اتحاد بنا سکتی تھی لیکن اس کے پاس یہاں کوئی مؤثر سیاسی خاندان اب رہا نہیں۔ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر سیدہ شہلہ رضا نے جھنگ کا دورہ کیا تو وہ بھی شیعہ کارڈ پی پی پی کے حق میں کھیلتی رہیں۔ زمینی حقائق سے وہ لاعلم تھیں۔
پی پی 78 سے مسرور جھنگوی کی کامیابی پر ہم سب طوفان اٹھائے ہوئے ہیں۔ فوج، نیشنل ایکشن پلان، حکومت اور قانون کو بے دریغ صلواتیں سنا رہے ہیں لیکن اس حلقہ انتخاب کے اندر ہوئی بےضمیریوں، موقع پرستی اور کج ادائیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ سوال بہت سادہ ہے جو دعویٰ کرتے تھے کہ 216،562 ووٹروں میں سے ڈیڑھ لاکھ صوفی سنی (بریلوی) اور 40 ہزار شیعہ ووٹ ہیں ان کے ایک لاکھ نوے ہزار ووٹ کہاں "چلے” گئے؟ دیہی سماج سے جڑے برادری ازم، تنگ نظری، جاگیرداری اور مفاد پرستی سے عبارت حلقہ انتخاب میں دونوں طرف موقع پرست تھے۔ موقع پرستوں کا ایک ٹولہ جیت گیا اور دوسرا ہار گیا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ یکم دسمبر کی شام مسرور جھنگوی کی کامیابی کے بعد جھنگ میں جو نعرے لگے وہ نئے نہیں۔ ان نتائج پر ماتم کرنے اور ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کو ازسرِ نو اپنی سیاسی پالیسیوں اور رویوں کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ سیاسی کارکنوں کی جگہ فرقہ پرستوں سے متعصب ہجوم اکٹھے کر کے انہوں نے کیا تیر مار لئے۔ یا پھر چوکے چھکے لگا لئے؟ مان لیجیئے کہ تکفیریت کا مقابلہ زمینی حقائق کی روشنی میں ممکن ہے بڑھکوں اور طعنوں سے نہیں۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی کے دونوں دھڑوں اور مخدوم فیصل صالح حیات کو مبارک ہو کہ ان کے تعاون سے 50 ہزار سے زیادہ صوفی سنیوں اور شیعوں کے قاتلوں کی وارث انجمن سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی کا امیدوار جیت گیا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس