Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

فکری بانجھ پن کا باوا آدم – جنرل ضیاء الحق | حیدر جاوید سید

5 جولائی 1977ء کا دن آتا ہے تو 40 سال بعد بھی یہ احساس دامن گیر ہو جاتا ہے کہ اس تیسرے مارشل لاء کے ’’تلے ہوئے لُچ‘‘ اس ملک اور قوم کا کب تک تعاقب کرتے رہیں گے؟ گو ہماری نسل پورے چار مارشل لاء بھگت چکی ۔ ان چار میں ایک یعنی چوتھا مارشل لاء غیر اعلانیہ تھا اور اس کے خالق دہلوی سرکار جنرل مشرف اسے لبرل جمہوریت اور ہم جرنیلی جمہوریت لکھتے رہے۔ خیرہماراموضوع یہ جرنیلی جمہوریت برانڈ لبرل جمہوریت نہیں بلکہ سلطان محمود غزنوی ثانی کہلوانے والے جنرل ضیاء الحق کا تیسرا مارشل لاء ہے۔ یہ عذاب پانچ جولائی ۱۹۷۷ء کو نازل ہوا اور پھر ایک خدائی فیصلے پر دو درجن بندوں اور ایک سی ون تھرٹی طیارے کی قربانی لے کر گیارہ سال ایک ماہ اور بارہ دن بعد ختم ہوا۔ عذابوں سے بھرے ان گیارہ برسوں میں پاکستان ایک اچھے بھلے ترقی پسند ملک سے تکفیریت میں اٹاملک بنا۔

میخانے بھٹو صاحب نے بند کر دئیے تھے جہادی میخانے ضیاء الحق نے قائم کیے۔ جنت اور حوروں کے لالچ سے سرشار مسلمانوں نے سوویت یونین توڑنے کی امریکی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے افغان میدانِ جنگ میں ’’دادِ شجاعت‘‘ دی۔ خود جنرل موصوف اس ملک کے اندر جہاد فرماتے رہے۔ بھٹو بہت اچھے انسان تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ترقی پسند سوچ کے حامل، لیکن تھے بہرطور ایک جاگیردار سو وہ ملاؤں کے پروپیگنڈے پرچند قدم پسپا ہوئے ، یہی اس ملک کے لئے نئے دور کی بجائے جہل و تعصب سے بھرے مارشل لاء کے نفاذ کی وجہ بنی۔ جنرل ضیاء الحق اپنے قیام اردن کے دوران فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک رہے تھے سو اردن کے شاہ حسین (اب مرحوم) نے بھٹو صاحب سے ان کی سفارش کی اور یقین دہانی بھی کروائی کہ ان جیسا وفادار اور تابعدار آرمی چیف انہیں نہیں مل سکتا۔ بلاشبہ وہ وفادار تھے اور تابعدار بھی اور پھر وفادار و تابعدارہر بندوق بردار کی طرح احسان فراموش بھی نکلے۔

کیا وقت تھے وہ بھٹو کو دیکھ کر سگریٹ جیب میں ڈال لیتے تھے، ان کے بوٹ کے تسمے باندھنے میں عزت افزائی محسوس کرتے اور کہا کرتے تھے ’’آپ عالم اسلام کے نجات دہندہ ہیں۔ مسلم دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ آپ اسلام کے قلعہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں‘‘۔ پھر ایک دن انہوں (جنرل ضیاء الحق) نے کہا قبر ایک ہے اور بندے دو۔ اس لئے انہوں نے بھٹو کو قبر میں ڈالنے کا اہتمام کیا۔ بھٹو قبر میں اتر کر دلوں میں دھونی رچاکر بیٹھ گئے اور جنرل ضیاء الحق تاریخ کے سزاوار ہوئے۔

یہ بھی پڑھئے:  منڈیوں کی ثقافت اور مصنوعی سماج

ذوالفقار علی بھٹو نابغہ عصر تھے۔ صاحب دانش، وسیع المطالعہ، مقابلتاََ جنرل ضیاء پکے پیٹھے میسنے، دھوکے باز، تکفیری مزاج رجعت پسند۔ بھٹو اور ضیاء کا تقابل بنتا ہی نہیں۔ بھٹو چندے آفتاب تھے اور جنرل ضیاء ظلم و جبر کے رکھوالے۔ اپنے اقتدار کی طولانی کے لئے ضیاء نے پچیس ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں، ادیبوں، صحافیوں اور اہلِ دانش پر کوڑے برسوائے اور سوا لاکھ کے قریب سیاسی کارکنوں ، صحافیوں، ادیبوں ، شاعروں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوائیں۔ جنرل ضیاء کا عہد ستم گیارہ سال سے مہینہ بھر اوپر چلا۔ پاکستانی سماج کی شناخت ہی نہیں بدلی انہوں نے بلکہ سب کچھ تبدیل کر دیا۔ ان کے بوئے کانٹے چنتے چنتے لوگوں کی پوروں سے خون رس رہا ہے۔ نفرتیں بارود بن کر پھٹ رہی ہیں۔ اپنے اقتدار کے لئے انہوں نے فرقہ پرستی اور عسکریت پسندی کی سرپرستی کی۔ پاکستان کو کرائے کے قاتل کی عالمی شناخت دلوائی۔

آج بھی جب ضیاء یاد آتے ہیں تولوگ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں ’’ آپ کے پاس کوئی جنگ ہوگی ہمارے پاس فوجی اور جہادی ہیں‘‘۔ ضیائی آمریت نے ذات پات، چھوت چھات، نسل برداری ، فرقہ پرستی، جہادیت کو پروان چڑھایا۔ پاکستا ن کو عالمی جہادیوں کی منڈی بنادیا اور مہاجرین کے لئے چراگاہ۔ ان کے بوئے ہوئے بیجوں کی فصلیں اس ملک کے عوام پچھلے تیس سال سے کاٹ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسی عوام دوست قیادت نہیں مل پائی جو حقیقی جمہوریت کے بیج بونے کے لئے کھیتوں کو ازسرِ نو تیار کرتی۔ بائیس کروڑ پاکستانی روتے پیٹتے لاشیں اٹھاتے پیاروں کودفناتے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء نے اس ملک کو اتنے گہرے گھاؤ دیے ہیں کہ بھرنے کو ہی نہیں آرہے۔ بھٹو کو وہ پھانسی پر چڑھا گئے، بے نظیر کو ضیاء کی بوئی ہوئی انتہا پسندی مار گئی۔ پاکستان میں دستیاب سیاسی قیادت چھان بورا ڈاٹ کام کے مافق ہے۔ جب بھی پانچ جولائی آتا ہے جنرل ضیاء کا بھوت ناچنے لگتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس کا بھوت پچھلے چالیس برسوں سے اپنا رقص دیکھا رہا ہے۔بٹوارے کے ہنگام میں موت کا رزق ہوئے لاکھوں مردوزن کا خواب تھا ایک فلاحی جمہوری پاکستان۔ جنرل ضیاء الحق نے ایسے بیج بوئے کہ اب ہر شخص اپنی فلاح چاہتا ہے جبکہ جمہوریت کا مطلب بالادست طبقات اور سول و ملٹری اشرافیہ کا ہنی مون ہے۔ اس ہنی مون کی رات ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی۔

یہ بھی پڑھئے:  عورت ۔ تبدیلی کا استعارہ

5 جولائی 1977ء سے جو سفر کھوٹا ہوا اب تک وہی جاری ہے۔ منزل کا کچھ معلوم نہیں، دوڑے بھاگتے پھر تے ہیں۔ ہماری آئندہ نسلوں کی قسمت میں ابھی کتنے بے اماں ماہ وسال لکھے ہیں یہ فقط ’’رب جانے‘‘۔ ضیاء کا بھوت ہماری جان ہی نہیں چھوڑتا ۔ اس کی جہادیت کے پیروکاروں کے منہ کو خون لگ گیا ہے۔ معصوم پاکستانیوں کے خون پر پلتی منافرت بھری جہادیت کے ٹھکانے قدم قدم پرآباد ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے عہد ستم کے بھیانک مظالم سے ناواقف ایک پوری نسل طبقاتی نظام کو جمہوریت سمجھ کر جمہوریت کو گالی دیتی ہے اور جرنیلی جمہوریت کی راہ دیکھ رہی ہے۔ کمال مہارت سے ضیا ء الحق نے مذہب و سیاست کو کاروبار بنوا دیا۔ اب مذہبی و سیاسی تاجر دندناتے پھرتے ہیں۔ صاحبانِ علم اور سیاسی کارکن خال خال ہی بچے ہیں۔ کچھ رونق ان بچے کچھے لوگوں کے دم سے ہے۔ ہمارا دکھ یہ ہے کہ اگر عاشقانِ جمہوریت کی بچی کچھی نسل بھی نہ رہی تو اس ملک میں جمہوریت کا نام کون لے گا؟ حملہ آوروں کو نجات دہندہ اور لٹیروں کو ہیرو پڑھنے والی نسلیں اس فکری بانجھ پن سے کیسے نجات حاصل کریں گی۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جب کبھی ایسا سوچتا ہوں تو شدید دکھ سے آنکھیں بھر آتی ہیں۔ کاش ایسا ہوکہ زمین زادوں کو ایک ایسی قیادت نصیب ہو جو انہیں زندگی کے دوسرے مسائل کے ساتھ فکری بانجھ پن سے بھی نجات دلائے اور پاکستان کو حقیقی عوامی جمہوری فلاحی ریاست بنا کر بٹوارے کے عمل میں موت کا رزق بنے اور بحالی جمہوریت کے معرکوں میں جان سے جانے والوں کے خوابوں کو تعبیر دے سکے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس