جنم بھومی ہو یا وسیب آدمی عجیب سا لگتا ہے کہ مہمان کے طور پر آئے اور رخصت ہو لے۔ لیکن غمِ روزگار کے الگ تقاضے ہیں۔ کسے چھٹی ملتی ہے جو رزق سے بندھی ہجرت سے بندھ جائے۔ سو یہی حالت ہے ہماری۔ ملک قمر عباس اعوان کے ہمراہ لاہور سے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ خانیوال سے عامرحسینی شریکِ سفر ہوئے۔ کوٹ ادو ہماری منزل تھی جہاں سید صدیف گیلانی اور رضوان گورمانی کی میزبانی میں دو دن بیتائے۔ گیلانی کے شفیق و مہربان والدِ محترم سے بھرپور نشستیں ہوئیں۔ اسی دوران سرائیکی وسیب کے نامور شاعر اصغر گورمانی، سردار اسلم گورمانی، برادرِ عزیز سید ناظم شاہ اور معروف ادیب و دانشور ڈاکٹرعباس برمامی بھی ہمارے میزبانوں کی دعوت پر کوٹ ادو تشریف لےآئے۔ زندگی سے بھرپور دو ہی دنوں میں ایک میزبانوں اور دوسرا ان مہربانوں کے ساتھ گزرا۔ عامر حسینی خانیوال سے شریکِ سفر ہوئے تو ملک قمر عباس اعوان نے کہا” حسینی صاحب! دانشوری سےپرہیز لازم ہے کیونکہ ہم گھر سے تفریح کے لئے نکلے ہیں”۔ حسینی نے اپنا وعدہ نبھانے میں کوئی کسسر نہ چھوڑی لیکن کیا کیا جائے کہ جب ایک مظلوم وسیب کے چند زمین زادے اکٹھے ہوں گے تو گفتگو کا رخ بہرطور حالات حاضرہ کی سمت مڑے گا ہی۔ سو یہی ہوا۔ سارے وعدے اور اعلانات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ملک قمرعباس کو بار بار یاددہانی کروانا پڑی لیکن ہو ا وہی جو محفل و مجلس کی ضرورت تھا۔ سرائیکی وسیب کے حالات قومی تحریک، وسیب کی سیاست کے لئے دستیاب جماعتوں اور قائدین سے لے کر پیپلز پارٹی کی سیاست، ماضی، حال اور مستقبل سب زیرِ بحث آئے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق سب نے حصہ ڈالا۔ ایک بات پر سارے دوست متفق تھے کہ قومی جدوجہد اور الگ صوبے کے قیام کے لئے جس شعوری تحریک و رہنمائی کی ضرورت ہے اس سے دامن خالی ہے۔ نئی نسل کی فکری و سیاسی رہنمائی کے لئے ایک بھی ایسا ادارہ نہیں بن پایا جس سے کچھ اہلِ دانش منسلک ہوں اور وہ زبانی جمع خرچ کے بجائے دستاویزی شہادتوں کے ساتھ وسیب کےمقدمہ سے نئی نسل کی رہنمائی کریں۔
یہ بھی زیرِ بحث آیا کہ کیا وسیب میں یہ سیاسی شعور اجاگر ہو پایا کہ قومی تشخص و حقوق کی تحریک بنیادی طور پر بائیں بازو کی تحریک ہوتی ہے۔ اس کا سارا کیڈر (لیڈران و کارکنان) بائیں بازو کی فکری دانش سے رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ بھی کہ بائیں بازو کے قوم پرست ریاست کی فیشنی مخالفت کو جوہرِ زندگی نہیں سمجھتے بلکہ وہ ریاستی اداروں کے بالا دستوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور اقدامات کےناقد ہوتے ہیں۔ یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اسی دوران یہ سوال بھی اٹھاکہ سرائیکی صوبہ کےقیام کے حوالے سے پرنٹ میڈیا میں ان دنوں جو مضامین کی چاند ماری جاری ہے یہ کیا ہے؟ عرض کیا اپنے اپنے حصہ کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لازم نہیں کہ کچھ لوگ اگر باؤلے پن کے مرض کا شکار ہوجائیں تو ان کی سطح پر اترا جائے۔ بنیادی ضرورت یہ ہے کہ شائستہ انداز میں دلیل کے ساتھ سرائیکی وسیب کا مقدمہ پیش کیاجائے۔ کیاایک قدیم تاریخ و تہذیب کے وارثانِ نو اتنے گئے گزرے ہیں کہ وہ جواباََ پتھراچھالنے لگ جائیں؟ کم از کم اس طالب علم کا جواب نفی میں ہے۔ ہم وسیب زادے جو ہیں یہی سچ ہے کسی کی خوشنودی یا کسی کے خوف میں اپنی تاریخی شناخت سے دستبردار کیوں ہوں؟ شرفِ انسانیت یہی ہے کہ اپنی فکر پر استقامت کے ساتھ قائم رہا جائے اور دوسروں کی شناخت کا کھلے دل سے احترام کیا جائے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ درگزر اور معاف کردینے میں بڑائی ہے۔ گالی میں جس نے بھی پہل کی اس نے تربیت کا حق ادا کیا۔ آدمی کلام کرتا ہے تو اس کا باطن ظاہر ہوتا ہے۔ مجھ سا طالب علم اب بھی اس رائے پر قائم ہے کہ جوابی پتھراؤ کے بجائے دلیل کے ساتھ اپنی بات سامنے رکھی جائے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے مسائل بڑھیں گے یہ بات سب کو سمجھنا ہو گی۔ بجا کہ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے مگر زندگی کا حسن یہی ہے کہ برداشت کی حد کو ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ بلاوجہ کے معترضین کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اگر وہ قدیم تاریخی و تہذیبی شناخت کی حامل ایک قوم کا ٹھٹھہ اڑائیں گے تو جواباََ پھول نہیں برسائے جائیں گے۔ زبانوں اور قوموں کی تشکیل کے تاریخی عمل سے عدم آشنا لوگوں سے کوئی پوچھے تو کیا حکمرانی اور سیاست کی ضرورت کے لئے تخلیق ہونے والی زبانیں ، قومیں اور نظریات انسانی سماج میں صدیوں سے مختلف شناختیں رکھنے والوں سے زیادہ مقدس ہیں؟
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ انسان اپنے اصل اور عصر سے کٹ کر نہیں جی سکتا۔ یہ سوال ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں کہ آپ قوم کیسے ہیں؟ حضور کیا آپ سے پوچھ کر قوم تشکیل پاتی ہے؟ جی نہیں۔ لیکن آپ کا انکار ایک ایسے تعصب کو پروان چڑھائے گا جس کا مداوا بہت مشکل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کالموں میں قبل ازیں بھی عرض کر چکا ہوں کہ لوگوں کے اصل پر حملہ نہ کیجئے۔ ہم سب کو اب یہیں رہنا ہے یہی ہمارا سب کچھ ہے۔ کیا باہمی تعاون، اخلاق و اتحاد سے بنے ماحول میں ایسی تحریک جنم نہیں لے گی جو آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ و مامون بنا دے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ اتحاد ہی اصل طاقت ہے۔ کاش اس وسیب کے زمین زادے یہ سمجھ پائیں کہ "باہر” کی کچھ قوتیں ہمارے وسیب میں نفرتوں اور منافرتوں کو ہوا دے کر ایسا ماحول برقرار رکھنا چاہتی ہیں جو ان کی لوٹ کھسوٹ میں معاون ثابت ہو۔ خدا کے بندو جو بات کل کو ٹھوکریں کھا کر سمجھنی ہےوہ آج کیوں نہیں سمجھ لیتے؟ یہی سچ ہے کہ سرائیکی وسیب میں بسنے والے تمام طبقات کے مفادات اور مستقبل اسی سرزمین سے جڑا ہوا ہے۔ طبقے دو ہی ہیں۔ ایک ظالموں کا اور دوسرا مظلوم زمین زادوں کا۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ شعوری طور پر ظالموں کے مدد گار بنتے ہیں یا مظلوم زمین زادوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تاریخ خود لکھتے ہیں۔ صاف سیدھے انداز میں یہ کہ قومی شعور اور شناخت کی جدوجہد ایک حقیقت ہے اس سے انکار آنے والے دنوں میں ملال کے سوا کچھ نہیں دے گا۔ ایک کثیر القومی ملک میں اگر چار اکائیوں کی جگہ ازسرِ نو حد بندیوں سے پانچ قومی اکائیاں بن جائیں گی تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ البتہ ہمیں ( یہاں ہمیں مراد ہم سب ہیں) یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ انکار مخالفت، تذلیل بھرے جملے جو خلیج پیدا کرنے جارہے ہیں اس کا فوری تدارک نہ ہوا تو آنے والے برسوں اور دہائیوں میں جو نقصان ہو گا وہ کسی ایک طبقے کا نہیں بلکہ سب کا ہو گا۔ اجتماعی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے ہم سب۔ پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو گیا۔ وفاق پرستوں اور پالشیوں مالشیوں سے فیض کی توقع جاگتی آنکھ کا خواب ہے۔ لاریب کہ قومی تحریک میں مختلف الخیال طبقات شریک ہوتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی وحدت کو طبقاتی بالادستی کے مجاوروں سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ سرائیکی ویب کے مظلوم زمین زادےجب اپنے قومی شعور کی بنیاد پر جغرافیائی اکائی کی بات کرتے ہیں تو مطالبہ کسی بھی طرح کسی آسمانی صحیفے کا انکار نہیں۔ قومی شعور سے عبارت تحریک بنیادی طور پر رنگ و نسل، عقیدوں اور مذاہب کی سطح سے بلند ہوتی ہے۔ یہی سمجھنے والی بات ہے۔ اس وسیب (سرائیکی وسیب) میں آبادسارے لوگ رنگ و نسل، زبان و عقیدے اور مذہب کی اپنی شناختوں کے باوجود اسی وسیب کے زمین زادے ہیں۔ دشمن اصل میں ہمارے اتحاد کی طاقت سے خوفزدہ ہے اسی لئے الٹی سیدھی چالیں چلتا ہے۔ ان چالوں اور سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے لازم ہے کہ اتحاد کی قوت کا عملی مظاہرہ کیا جائے تاکہ تعمیر و ترقی، خوشحالی اور حقِ حکمرانی کے دروازے زمیں زادوں پر کھلیں ۔ ان زمین زادوں پر جو صدیوں سے بالادست طبقات کے استحصال کا شکار ہیں۔ کبھی بنام مذہب اور کبھی بنام نظریاتی مجاوری۔ حرفِ آخر یہی ہے کہ سرائیکی قوم پرستوں کو بھی کشادہ دلی کے ساتھ باقیوں کو سینے سے لگانے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں یقین دلانا ہوگا کہ "ہم سب آپ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ان سب کا جو اس وسیب کے زمین زادے ہیں”۔
بشکریہ روزنامہ خبریں، ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn