جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا تاریخ کے نازک موڑ پر آ گیا ہے عالمی اقتصادی ترجیحات نے موجود جغرافیائی صورت حال میں نئے سوالات کو جنم دینا شروع کر دیا ہے ان بے شمار سوالات کے جواب اس خطے میں گوادر کے مرکز اور کاشغر سے گوادر تک بننے والی اقتصادی راہداری میں چھپے ہوئے ہیں۔۔۔ گوادر کی مرکزی حیثیت اور اقتصادی راہداری منصوبے نے ہی پاکستان کے لیے نئے دفاعی، سیاسی اور اقتصادی چیلنج پیدا کر دیے ہیں خصوصاً پاکستان اور امریکا کے درمیان ماضی کے خوشگوار تعاون سے بھرپور تعلقات کو بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لا کھڑا کیا ہے۔ جن سے پاکستان اور اس کے حکمران طبقات کے لیے بھی خطرات کی واضح نشاندہی ہو رہی ہے جس میں ماضی کے کچھ سبق آموز واقعات بھی ہیں ہ امریکا اپنے مفادات کے تحفظ اور نگرانی کی خاطر محبت اور جنت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے کے نظریے پر عمل درآمد سے بھی گریز نہیں کرتا رہا ہے۔ خدا کرے آیندہ کسی سبق آموز واقعہ کا ظہور نہ ہو۔
ایک نقطہء نظر تو یہ بھی ہے کہ۔۔۔ 77 ء کا پاکستان ہے اور نہ ہی 88ء والا پاکستان ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اور اس کے نئے سیاسی اتحادی بھی کچھ کمزور نہیں وہ پاکستان کے سیاسی اور جغرافیائی تحفظ اور قومی سلامتی کو بھی اپنے سیاسی اقتصادی اور علاقائی مقاصد میں اولیت دیتے ہیں بلکہ ان کی ترجیحات کی عملی شکل پاکستان کے محفوظ مستقبل کے بغیر روپذیر نہیں ہو سکتی اس لیے پاکستان کی مدد ان کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں این ایس جی گروپ میں بھارت کی شمولیت اور اس کے ساتھ پاکستان کو بھی شامل کرنے کی عالمی پالیسی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جغرافیائی سرحدوں پر براہ راست حملہ تو شاید 65ع اور 71ع کی طرح ممکن نہ ہو لیکن اسامہ پر ہونے والے حملے اور اس کی گرفت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ معروض میں تبدیلی کی قوت متحرکہ شخصیت کو زک پہنچانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے ویسے بھی اب ڈرون ٹیکنالوجی نے اہداف کو نشانہ بنانے سے نئے خطرات کی نشاندہی کر دی ہے ویسے بھی نئے پاکستان مخالف اتحاد کی کینہ پروری ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔
بہر حال دوستو ہمارے سیاستدان اور حکمران طبقے نوشکی میں ہونے والے ڈرون حملے کو جس میں طالبان راہنما ملا منصور اختر ہلاک ہوا تھا پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے خلاف حملہ قرار دیتے ہیں مزید یہ کہ پاک امریکا تعلقات میں خرابی کے بعد جو امریکی وفد پاکستان آیا اس نے مشیر خارجہ کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی ان ملاقاتوں کی جو خبریں اخبارات میں آئیں ان میں بھی ڈرون حملے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا بعض ذرائع نے مستقبل میں ڈرون کو باقاعدہ نشانہ بنانے کی نشاندہی بھی کی۔۔۔ جو پاک امریکا تعلقات میں موجود تناو کا عکس تھا لیکن واقفان حال ان اخباری بیانات سے مطمئن نہیں ہوئے ان کا واضح مؤقف تھا کہ اصل تنازع کچھ اور ہے اور وہ علاقائی تبدیلی جس نے مقتدر قوتوں کو فیصلہ کن موڑ پر کھڑا کیا ہے اور وہ مستقبل کی جو راہیں متعین کر رہے ہیں ان راہوں پر سفر کا تقاضا تھا کہ وزیر اعظم کا علاج بیرون ملک ہو حالانکہ کہ اس طرح کے آپریشن لاہور کے کئی ہسپتالوں میں ہو سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں کچھ نطر آتا ہے اس کے پس منظر میں کچھ اور ہوتا ہے پاک امریکا تعلقات مں موجود تنازعات اور تضادات کچھ اور ہیں بلکہ ان کا اصل مرکز گوادر کی بندرگاہ اور بحرہند میں بھارت کا سیاسی، دفاعی اور علاقائی کردار ہے جو موجود توازن کو عدم استحکام کا شکار بنائے گا بلکہ اس سے بھارت ایک نیا علاقائی چودھری ہو گا۔ جس کو مبینہ طور پر نئی ابھرتی ہوئی اقتصادی اور علاقائی سیاسی قوت چین کے بالمقابل کھڑا کیا جا سکے گا یہ الگ بات کہ اس کا مذکورہ کردار بھی محض ایک راکھیل اور کٹھ پتلی کا ہو گا۔۔۔ لیکن ایک تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ایشیا میں جو نئی قوتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں اس میں ماضی کی ایک دوسری بڑی عالمی قوت روس بھی ہے جو چین کی قیادت میں خود کو نئے کردار کے لیے تیار کر رہی ہے۔ پاکستان کے پاس اگرچہ اقتصادی قوت نہیں لیکن اس کی دفاعی صلاحیتوں کی پوری دنیا معترف ہے۔۔۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایران کو بھی اس مبینہ اتحاد میں شامل کیا جاتا تھا۔ لیکن چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدہ میں جو معاشی مجبوریاں سامنے آئی ہیں اس میں نئی سمت کی نشاندہی ہوئی ہے مزید یہ کہ ایران کا موجودہ اقتصادی حجم صرف 600 ارب ڈالر کا ہے جسے وہ مزید مستحکم بنانے کے لیے ایک طرف تو تیل کی پیداوار میں اضافہ کر کے اسے عالمی مارکیٹ تک لے جانا چاہتا ہے دوم یہ کہ وسطی ایشیا کی مارکیٹوں تک بھارتی مصنوعات کی رسائی، اور وسطی ایشیا کے معدنی ذخائر کی عالمی مارکیٹ تک فراہمی کے ذریعے راہداری کے محصولات اور دیگر فوائد بھی حاصل کرنے کا خواہشمند ہے جس کے لیے 800 کلو میٹر کی سڑکیں وہ پہلے ہی تیار کیے ہوئے ہے۔ مزید یہ بھی کہ اقتصادی پابندیاں، عراق اور شام کی جنگوں، یمن کی بغاوت نے بھی اس کی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے جس کے باعث وہ نئے سیاسی اور علاقائی کردار میں چین اور روس کے بجاے امریکا بھارت اور یورپی ترجیحات میں شامل ہو رہا ہے ایک اور بات اس تناظر میں اہم ہے کہ اقتصادی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران اور کچھ یورپی ممالک میں تعاون کے معاہدے بھی ہوئے ہیں جو مفادات کی اس دنیا میں نئی سمت کی نشاندہی کرتے ہیں اور ایران کی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات میں تبدیلی کا پتا دیتے ہیں۔ اور وہ جو امریکا پر تبرہ ہوتا تھا وہ سب ماضی کی باتیں ہیں نظریے معاشی مفادات میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں جو کل تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل نہیں ہو سکتا۔ یا پھر کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بن کر سامنے آ سکتے ہیں مفادات کے زیادہ سے زیادہ تحفظ کو ہی اولیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں ہی پاک امریکا تعلقات کو دیکھنا چاہیے لیکن ہمیں گلہ ہے امریکا مطلب پرست ہے جب مفادات ہوتے ہیں وہ ہم سے رابطہ کرتا ہے اور پھر بھول جاتا ہے ہم اپنی پالیسیوں اور دہرے کردار پر غور نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ افغانستان کے حوالے سے سوویت یونیئن کے خلاف جہاد میں ہم نے کتنی قیمت وصول کی اور نائن الیون کے بعد ہم نے جو اشتراک عمل کیا اس پر مکمل عمل درآمد کیوں نہیں کیا اور ان طالبان سے امیدیں کیوں وابستہ کیے رکھیں جو اپنی دھرتی کے وفادار نہیں تھے اور جو ہر بدلتے سیاسی ماحول میں اپنے مفادات کی سمت میں اپنا رخ بھی تبدیل کرتے رہے جس کی زندہ مثالیں مولوی فضل اللہ اور گلبدین حکمت یار کی ہیں جو کل تک کہاں تھے اور آج ان کی منزل کیا ہے؟؟
ہمارے جذباتی ردعمل کے باوجود امریکیوں کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت مختلف ہے اس کے باوجود بعض عالمی ذرائع ابلاغ کہتے ہیں کہ امریکا ابھی پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتا کیوں کہ ابھی فغانستان میں امن اور اس کے لیے ممکنہ مذاکرات میں پاکستان کا کردار ناگزیر ہے تو دوسرا افغانستان کے راستے تیل اور گیس کی ممکنہ سپلائی ہے۔ تیل کی سپلائی کے لیے تو بظاہر ’’چاہ بہار‘‘ بندرگاہ کی تعمیر ہے لیکن گیس کی سپلائی کے لیے پھر بھی پاکستان کی سرزمین کی ضرورت ہے۔ چنانچہ سوال یہ بھی ہے کہ اب جب کہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسائل پر امریکی گرفت ہو گئی ہے تو پاکستان کے پاس اب معروض میں اسے دینے کے لیے کیا ہے؟ اور اس کے بالمقابل ہندوستان کے پاس کیا کچھ ہے ایک سو تیس کروڑ کی مارکیٹ نظریاتی اور فطری اتحاد۔ جس کا تذکرہ آنجہانی واجپائی نے بھی کیا تھا اور اس کا اظہار نریندر مودی نے بھی واشنگٹن میں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملک اقتصادی اور دفاعی اتحاد کی راہ پر گامزن ہیں۔ امریکی کمپنی نیوکلیئر تعاون کے تحت آندھرا پردیش میں چھے ایٹمی پاور پلانٹ لگا رہی ہے تعاون کا یہ معاہدہ دس سال پہلے بش جونیئر کے دور میں ہوا تھا اس وقت پاکستان میں مشرف کی حکومت تھی جو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تو بلند کرتے تھے مگر انھوں نے اس معاہدے پر کوئی احتجاج نہیں کیا؟ یہ تو پرانی بات ہے یہ تو کل کی باتیں ہیں کہ جب بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور ایس این جی گروپ کا رکن بنانے اور بحر ہند کی دفاعی ذمہ داری سونپنے اور چین کے بالمقابل قوت بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں تو ہماری خارجہ پالیسی میں کوئی جوش کیوں نہیں آیا۔۔۔ آخر ہمارے سفارت کاروں اور اداروں کو یہ خبر کیوں نہیں ہوئی کہ دو سال میں مودی نے امریکا کے چار دورے کیوں کیے اور وہاں کیا معاملات طے ہو رہے تھے؟ اور بھارت امریکا اتحاد کن ترجیحات کو عملی شکل دے رہا تھا؟ اب جب کہ چاہ بہار بندرگاہ کا معاہدہ ہوا ہے امریکا اپنے عالمی کردار میں بھارت کو بحر ہند کی دفاعی ذمہ داری سپرد کر کے، اسے این ایس جی گروپ میں بھی شامل کر رہا ہے تو اچانک یہ واویلا کیوں؟ یہ ناکامی کو شور میں دبانے اور اپنے عوام کو اصل حقائق سے گمراہ رکھنے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟ حیرت ہوتی ہے کہ ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر بیٹھے ہوئے سابق فوجی اہلکار تمام ذمہ داری سول حکومت اور ایک مکمل وزیر خارجہ کے نہ ہونے پر ڈالتے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ وہ اپنے ناظرین کو یہ نہیں بتاتے کہ بے چاری سول حکومت کی حدود کیا ہیں اور کہاں باہر نکلتے ہی ان کے پر جل جاتے ہیں بلکہ اس طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گناہ عظیم ہے ان کی ساری کوششیں خود ک بچا کر چلنے کی ہوتی ہیں۔ کسی کو انصاف کے نام پر شکنجے میں رکھا جاتا ہے تو کسی کے اردگرد تبدیلی کا عفریت کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ مبادا کوئی آزادانہ پالیسی پر عملدرآمد نہ ہو۔ بدقسمتی یہ بھی کہ عوام کی ذہنی اور سیاسی تربیت کا بھی کوئی اہتمام باقی نہین رہنے دیا گیا وہ تمام تر الزامات کی بوچھاڑ بھی سیاستدانوں پر ہی کرتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn