راولپنڈی لیاقت باغ کے پاس واقع میونسپل لائبریری گرا دی گئی۔ ایک صدی سے اوپر عمر کی لائبریری، پنڈی کے عروج و زوال کی شاہد میونسپل لائبریری ختم ہو گئی۔ چلو ایک اور روزن روشنی کا بند ہوا۔ ایک قدم تاریکی، جہالت کیطرف اور آگے بڑھ گئے ۔
اس لائبریری میں ہزاروں انمول کتابیں تھیں۔ پرانی کتابوں کی خوشبو، بوسیدہ اخباروں کی بوجھل مہک، خنکی، خاموشی، ایکدوسرے میں دھنسے پھیکے پڑتے قالین، برائون کرسیاں ، دیمک لگتی الماریوں کی چٹختی آوازیں یہ سب میرے بچپن کی یادوں کا حصہ ہیں۔ بچپن سے یونیورسٹی تک، اسائنمنٹس بنانی ہوں یا کوئی مقابلہ مضمون نویسی ہو، مشکل سے مشکل ترین موضوع پر کتاب یہاں سے ملی اور اب جب سے اس کے انہدام کی تصویر دیکھی ہے، دل و دماغ میں لائبریری والی بوجھل خاموشی چھا گئی ہے۔ کوئی قوم ہے ایسی دنیا میں جوڈیڑھ صدی پرانی لائبریری پر کدالیں ہتھوڑے لیکر چڑھی کھڑی ہو؟ ہتھوڑے برس رہے ہوں اور بے زبان ہزاروں کتابیں سہمی گم صم سر جھکائے اپنے مستقبل کا سوچ رہی ہوں؟ اب شاید یہ ہزاروں کتابیں ردی والے کو بیچ دی جائیں گی یا شاید نایاب نسخے ان قوموں کو کوڑیوں کے مول بیچے جائیں جو انکی قدر کرنا جانتی ہوں۔
قومیں وہی آگے بڑھتی ہیں جہاں مائیں روٹی بعد میں اور لائبریری کارڈ ہاتھ میں پہلے تھمائیں۔ پتہ نہیں اتنا افسوس کیوں ہو رہا ہے۔ کون سا ہمارے ہاں کتب بینی کا رواج رہ گیا ہے، کون سا ہمارے ہاں کتاب سے محبت باقی رہی ہے، کون سا یہ لائبریری پڑھنے والوں سے بھری پڑی رہتی تھی۔ پھر بھی دل دکھ سے بھر گیا ہے، وہی بے بسی والا دکھ جو راول ڈیم کو سوکھا پڑا دیکھ کر ہوا تھا۔ ڈیم سوکھ رہے ہیں ہم ڈوبتے چلے ہی جا رہے ہیں۔ لائبریریاں گر رہی ہیں اور ساتھ ہی ہم بھی۔
صحیح کہا کسی نے، میونسپل لائبریری کا ختم ہونا، پنڈی کیلئے اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے، اور ہم سب ان ہزاروں کتابوں کے مجرم۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn