Qalamkar Website Header Image

سنگریزوں کی بارش

akram sheikh newسرمایہ داری نظام کے سائے میں پوری دنیا ایک مارکیٹ ہے اور یہ نظام خریدوفروخت سے چلتا ہے اس نظام کے تحت مارکیٹ میں جو بھی کچھ موجود ہے اس کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے یعنی کسی شے کی زیادہ قیمت ہے تو کسی کی کم……… بلکہ ڈیمانڈ کے تحت اس میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے جس کو اتار چڑھاؤ کا نام د یا جاتا ہے………واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جب مارشل لاء ہوتے ہیں یا پھر نون لیگ کی حکومت بنتی ہے میڈیا کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور اس میں تیزی کا رجحان بھی آ جاتا ہے- نوازشریف ہوں شہباز شریف بلکہ اب تو حمزہ شہباز اور مریم نواز کی بھی صفحہ اول پر تشہیر لازم ہو جاتی ہے‘ بیانات بھی کارہائے نمایاں ہوتے ہیں‘ گویا حکومت کی کارکردگی میں حسن کارکردگی ہی ہوتا ہے‘ کوئی خرابی ہوتی ہے نہ کوئی غلطی نہ کوئی کوتاہی………سب اچھا ہی اچھا ہوتا ہے……… ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ان سے ہرکس و ناکس فیض حاصل کرنے لگتا ہے- کوئی بے روزگار رہتا ہے نہ ہی کسی کو بھوک ستاتی ہے‘ بین الاقوامی اور مقامی ادارے چیختے چلاتے رہیں کچھ فرق نہیں پڑتا بلکہ اسے جھوٹ ثابت کرنے والے تنخواہ دار میدان میں اتر کر ڈھول بجانے لگتے ہیں تاکہ کوئی ناپسندیدہ آواز عوام کے کانوں تک نہ پہنچے یہی تو کمال فن ہے- لیکن کیا کیجئے کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی ایسی آواز بھی نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر سنائی دے جاتی ہے اور اس میں سے کچھ حقائق میں سامنے آ جاتے ہیں-
ابھی نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر نندی پور پراجیکٹ کی صدائیں فضاؤں میں گردش کر رہی تھیں‘ ترقی کے چہرے سے نقاب اتار رہی تھیں……… بتایا جا رہا تھا کہ نندی پور پراجیکٹ جس کے لئے گذشتہ حکومت سے مخاصمت بھی ہوئی تھی اس پر الزامات کی بارش بھی ہوئی عدالت کے دروازے پر دستک بھی دی گئی تھی- حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسے اولین ترجیح بنا کر کام بھی شروع کروایا گیا تھا یہ دعوی بھی ہوا تھا کہ………اندھیرے چھٹنے والے ہیں‘ اور پھر یوں بھی ہوا کہ اس کو کامیابی کا ایک اور زینہ قرار دے کر اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے ڈھول بھی بجائے گئے‘ افتتاح کرکے اس کے ایک حصہ کی پروڈکشن بھی شروع ہوئی لیکن افسوس کہ مشینری نے ساتھ نہیں دیا- خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی بکھر گئے کون ذمہ دار تھا‘ کون نہیں؟؟ یہ عوام کے سوچنے سمجھنے اور پوچھنے کی بات نہیں‘ عوام تو ویسے ہی بھول جانے کے عادی ہیں‘ ستم بالائے ستم کہ ابھی اس بھول سے نجات نہیں ملی تھی کہ کچھ اور خبریں گذشتہ مہینے حقائق کے نقاب اتارنے کو آ گئیں‘ نندی پور پراجیکٹ جہاں سے425 بجلی پیدا ہونا تھی وہاں سے صرف229 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے یعنی یہ پراجیکٹ اپنی صلاحیت سے صرف آدھی بجلی پیدا کر رہا ہے اور اس سے ہر مہینے چار ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جو اس ملک کے مجبور‘ محروم اور مقہور عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے- جنہوں نے اسے ایک اور بوجھ کی طرح اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا ہے اور شاید کچھ اور بوجھ بھی اٹھانے کو تیار ہونگے-
ابھی اس بازگشت کی صدائیں فضاؤں کو مرتعش کر رہی تھیں کہ ایک اور کارنامہ سامنے آ گیا ہے‘ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹکی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے سربراہ طارق بشیر نے چولستان میں لگائے گئے سولر پراجیکٹ کے چہرے سے بھی نقصاب اتار دیا ہے انہوں نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ سولرپراجیکٹ سے ایک سو میگاواٹ بجلی قومی دھارے میں شامل ہونا تھی لیکن اس پراجیکٹ سے شروع میں صرف16 میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی تھی لیکن اب وہاں اس سے بھی کم بارہ‘ تیرہ میگاواٹ بجلی روزانہ پیدا ہو رہی ہے‘ سولر پراجیکٹ میں چھ سو مزدور چین سے آئے ہوئے ہیں اور اس پراجیکٹ کی حفاظت کے لئے 800 پولیس اہلکار بھی بھرتی کئے گئے ہیں‘ بھول جائیے کہ اس پراجیکٹ پر کتنی رقم خرچ ہوئی تھی اور کہاں سے کتنے انٹرسٹ پر حاصل کی گئی تھی اور ایک سو میگاواٹ بجلی کس قیمت پر حاصل ہونا تھی اور اب اگر12/13 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے تو اس کے اخراجات کیا ہیں اور ان اخراجات کے بدلے عوام کو کتنی بجلی حاصل ہوتی ہے………. ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پیش کی گئی ہے اور اسے محض اس بنا پر نظر سے اوجھل نہیں کیا جاسکتا کہ ……….طارق بشیر چیمہ کا تعلق قاف لیگ سے ہے لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا مقامی سیاست میں بھی اہم کردار ہے‘ مذکورہ پراجیکٹ بھی ان کے آبائی حلقہ انتخاب کے پڑوس میں چولستان میں واقع ہے………. بہرحال اخبارات کے قارئین کو یاد ہوگا کہ اس پراجیکٹ کی تکمیل پر بھی بہت سے ڈھول بجائے گئے تھے اور اس کا وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے مبارک ہاتھوں سے خود افتتاح کیا تھا- وزیر اعظم اپنی شایان شان اور جاہ و جلال کے ساتھ اسلام آباد سے چل کر خود آئے تھے- اس افتتاح پر مبینہ طور پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے تھے-
حرف آخر کی صداقت یہی ہے کہ شریف برادران اور ان کے ہمنواؤں میں ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں اور نعروں کا مقابلہ جاری ہے‘ اخبارات بھی انہی نعروں سے گونج رہے ہیں مگر حقائق ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے چھلک ہی جاتے ہیں اس صورت حالات میں پیمانوں کو بھی تھوڑا اور پابند کر لیا جائے تاکہ ترقی اور خوشحالی پر یوں سنگریزوں کی بارش نہ ہو-

حالیہ بلاگ پوسٹس