Qalamkar Website Header Image

سرزمین بے آئین گلگت بلتستان کی سیاسی محرومیاں اور نوجوان نسل – حصہ دوم

سرزمین بے آئین گلگت بلتستان کی سیاسی محرومیاں اور نوجوان نسل – اس تحریر کا حصہ اول پڑھئے

گلگت بلتستان میں آئینی بحران کس طرح ہے؟

بھارت اور پاکستان کے مابین متنازعہ کشمیر کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ہے جس کو بھارت کے آئین میں عبوری طور پر خصوصی خودمختاری کا درجہ حاصل ہے جس کے تحت اسے راجہ سبھا اور لوگ سبھا یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ دونوں میں نمائندگی حاصل ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے زیر انتظام خود مختار ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے جسے داخلی خود مختاری حاصل ہے جبکہ تیسرا حصہ گلگت بلتستان ہے جسے نہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے اور نہ ہی داخلی خود مختاری بلکہ ایک غیر آئینی صوبے کا لولی پاپ دے کر علاقے کے بیس لاکھ عوام کو بے وقوف بنا کر رکھا گیا ہے۔ الغرض گلگت بلتستان ایسے تمام حقوق سے محروم ہے جو ایک متنازعہ علاقے کو حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ پاکستان ہی کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر ریاست کو دفاع، خارجہ اور کرنسی کے علاوہ تقریباً تمام دیگر ریاستی امور میں داخلی خودمختاری حاصل ہے۔ ان کا اپنا صدر، وزیر اعظم، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، پبلک سروس کمیشن وغیرہ موجود اور فعال ہیں اسی طرح سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت سرزمین کشمیر کا تحفظ کیا جاتا ہے اور کوئی بھی غیر مقامی وہاں زمینوں کی خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔

اگرچہ آئین پاکستان میں گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کا بھی ذکر موجود نہیں ہے مگر اقوام متحدہ کے مسئلہ کشمیر کے مطابق گلگت بلتستان متنازعہ کشمیر کا حصہ ہے۔ پاکستان کے پاس موجود دو حصوں میں سے ایک حصےیعنی آزاد کشمیر کو خود مختاری دی گئی ہے لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان کو یہ خود مختاری حاصل نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے حل کے لیے ممکنہ آپشنز

گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق کے مستقل کے لیے ممکنہ طور پر کئی حل موجود ہیں؛

پانچواں صوبہ
گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنایا جائے۔ مگر اسے آئینی صوبہ بنانے کے لیے حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق جمع قرارداد میں اپنے اصولی موقف میں تبدیلی اور پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم لانی ہوگی جس کے بعد علاقے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جانا ہے۔ پاکستان نے یہ امید بھی لگا رکھی ہے کہ جب بھی مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہو اور پورے متنازعہ خطے میں استصواب رائے کیا جائے تو اٹھائیس ہزار مربع میل سے زائد رقبے کے بیس لاکھ باشندے یعنی گلگت بلتستان کا ووٹ مکمل طور پر پاکستان کے حق میں ہوگا جس سے مجموعی صورت حال پاکستان کے حق میں جائے گی۔ ایک بہانہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان جی بی کو فی الحال آئینی صوبہ نہیں بنانا چاہتا تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا موقف مضبوط نہ کر لے۔ بھارت سے کئی جنگیں لڑنے، ہزاروں جانیں دینے اور کھربوں ڈالر کے قومی وسائل خرچ کرنے کے بعد کشمیر کی قیمت پر شاید پاکستان گلگت بلتستان کو کبھی بھی مکمل آئینی صوبہ نہ بنائے، اس کے علاوہ کشمیری قیادت بھی اس کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ چنانچہ آئینی صوبہ نہ بنانے کے عزم کا اظہار مختلف وفاقی وزراء سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے متعدد بار کیا ہے۔
گلگت بلتستان میں موجودہ صوبائی شکل کسی طور پر آئینی صوبہ نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی، گلگت بلتستان کونسل، وزیر اعلی ٰاور گورنر خالصتاً نمائشی عنوانات ہیں۔ ان کے اختیارات دونوں ہی مقامی کونسلر سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ موجودہ سیٹ اپ آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے جس میں گلگت بلتستان کے نام کا کوئی صوبہ وجود ہی نہیں رکھتا، کسی بھی آفیشل دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا صوبے کے طور پر ذکر کہیں نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ وفاق اپنے ایک وزیر اور اپنی بیوروکریسی کے ذریعے اس علاقے کو انتظامی طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ چنانچہ گلگت بلتستان کے تمام کلیدی عہدوں پر وفاق ہی اپنے بندے بھیجتے ہیں۔ چنانچہ علاقے کے معاملات میں وزیر اعلیٰ سے زیادہ چیف سیکٹری کی حیثیت فیصلہ کن اور اہم ہوتی ہے جسے وفاق تعینات کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  طویل عرصے بعد آسٹریلوی سرزمین پر پاکستان کی فتح

آزاد جموں و کشمیر طرز کی داخلی خود مختاری
دوسرا حل داخلی خود مختاری دینے کا ہے۔ جی بی عوام زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک اب کشمیر طرز کی خود مختار ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو داخلی ریاست کا درجہ ملنے کی صورت میں یہاں آزاد کشمیر کی طرح کرنسی، خارجہ پالیسی ، دفاع اور مواصلات وغیرہ کے معاملے میں پاکستان کے زیر انتظام ہو گا جبکہ دیگر معاملات میں گلگت بلتستان خود مختار ہوگا۔ گلگت بلتستان کی مقامی قوم پرست سیاسی تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ و موقف یہی رہا ہے جسے اب عوامی حلقوں میں بھی بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔

آزاد جموں و کشمیر ریاست میں انضمام
تیسرا ممکنہ مگر علاقے کی عوام کے نزدیک انتہائی نا مطلوب آپشن یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کو موجودہ آزاد کشمیر ریاست میں ضم کیا جائے۔ مگر ستر سالوں سے کسی طرح تعامل نہ رہنے، جعرافیائی دوری اور وسائل و اختیارات میں تقسیم نیز سب سے بڑھ کر گلگت بلتستان کے عوام کے اس آپشن کے لیے غیر آمادگی کے باعث یہ حل انتہائی نامطلوب ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ
گلگت بلتستان کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق کے مسئلے پر حکومت پاکستان اسے مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک آزاد کشمیر کی طرز پر داخلی خود مختاری دینے کے عزم کا اظہار کرے اور علاقے میں استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کو ریفرنڈم کی نگرانی کرنے کی درخواست کرے۔۔ اس حل میں مسئلہ کشمیر پر بھی فرق نہیں پڑتا اور علاقے کو اس کی خواہش کے عین مطابق سیاسی حقوق پر مبنی خود مختاری بھی حاصل ہو جائے گی۔ یہی آسان ترین اور ہر ایک کی جیت (win-win) حل ہے۔ پاکستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ ستر سال سے پکتے ہوئے لاوے کو پھٹنے سے پہلے حل کرے۔ گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات کی کمیٹیاں بناتے رہنا اور عوام کی مرضی کے بغیر ا ن پر کوئی بھی نظام تھونپنا اب کسی طرح دانشمندی نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال سرتاج عزیز کمیٹی کے سیاسی اصلاحات بعنوان ’’گلگت بلتستان آرڈر ۲۰۱۸ کے منظر عام پر آنے والے ڈرافٹ پر سامنے آنے والاگلگت بلتستان کا عوامی رد عمل ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  خواتین کے حقوق کا تحفظ اور دین اسلام - اختر سردار چودھری

اس پورے تناظر میں گلگت بلتستان کے باشعور جوانوں کی جانب سے ستر سالوں سے پاکستان کے آئینی فریم ورک سے باہر اور آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت و حقوق سے متعلق آگہی کے لیے پاکستان کے مختلف بڑے شہروں میں قومی سطح کے سیمیناروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، لاہور، راولپنڈی میں کامیاب سیمیناروں کے بعد سکردو میں تیسرے سیمینار کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ جبکہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی سیمینار کے انعقاد کا اعلان عنقریب کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں کا ۲۰۱۳ سے مسلسل سرگرم عوامی اتحاد ’’گلگت بلتستان عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ اس آگہی مہم کو عوامی حلقوں تک پہنچا رہی ہے۔

مختلف تعلیمی، صحافتی، سیاسی، سماجی، مذہبی، قانونی تزویراتی اور تحقیقاتی اداروں، تنظیموں اورانجمنوں سے وابستہ احباب سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ بے آئین و بے آواز گلگت بلتستان کے لیے آواز اٹھانے میں گلگت بلتستان کے مہذب و باشعور جوانوں کا گلگت بلتستان کے باشعور جوانوں کی جانب سے ستر سالوں سے پاکستان کے آئینی فریم ورک سے باہر اور آئینی حقوق سے محروم گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت و حقوق سے متعلق آگہی کے لیے مختلف شہروں میں قومی سطح کے سیمیناروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، لاہور، راولپنڈی کے بعد سکردو میں تیسرے سیمینار کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ جبکہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی سیمینار کے انعقاد کا اعلان عنقریب کیا جائے گا۔

مختلف تعلیمی، صحافتی، سیاسی، سماجی، مذہبی، قانونی تزویراتی اور تحقیقاتی اداروں، تنظیموں اورانجمنوں سے وابستہ احباب سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ بے آئین و بے آواز گلگت بلتستان کے لیے آواز اٹھانے میں گلگت بلتستان کے مہذب و باشعور جوانوں کا ساتھ دیں اور گلگت بلتستان کو آئینی بحران اور سیاسی و معاشی محرومیوں سے نکالنے کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس