گلگت بلتستان کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں کا بنیادی سبب عام شہریوں خصوصاََ سکول کے طلبہ سے لے کر یونیورسٹیوں کے محققین و اساتذہ تک کو علاقے سے متعلق درست معلومات کی فراہمی نہ ہونا ہے ۔کیونکہ آئین پاکستان سمیت کسی بھی سرکاری دستاویز، قومی نصاب سمیت دیگر لٹریچر میں گلگت بلتستان کا اس کی آئینی حیثیت کے تناظر میں ذکر کہیں نہیں کیا جاتا۔ نیز قومی پالیسیوں اور ذرائع ابلاغ پر بھی گلگت بلتستان کے وسائل و مسائل، اور حقوق اور احوال پر بحث نہیں ہوتی، مقامی سطح پر آواز اٹھانے والوں کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح عملی طور پر قومی اسمبلی، سینٹ، بین الصوبائی مفادات کونسل، این ایف سی ایوارڈ سمیت کسی بھی آئینی فورم پر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے گلگت بلتستان سے متعلق عوام و و خواص دونوں کی عمومی آگاہی کا معاملہ ناگفتہ بہ ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان ہماری اسٹبلشمنٹ کی بے حسی، حکمرانوں کی بے حمیتی ، جمہوریت پسند، ترقی پسند دانشور طبقات کی گلگت بلتستان سے متعلق کم علمی جبکہ قومی میڈیا پر ایک طرف مالکان کی کاروباری پالیسی اور دوسری طرف پیمرا کی ریاستی پالیسی اثر انداز ہوتی ہے جس کے تحت کاروباری مفاد یا قومی مفاد کے چکر میں گلگت بلتستان جیسے اہم سرحدی و سٹریجک علاقے کی آواز نظر انداز ہوتی ہے۔
پاکستان کے شمال مشرق میں موجود قدرتی وسائل سے مالا مال علاقہ گلگت بلتستان ہے جس کی آبادی تقریباً دو ملین ہے۔ جس میں سے ایک چوتھائی آبادی تعلیم اور روزگار کی خاطر کراچی، راولپنڈی اسلام آباد اور لاہور سمیت دیگر شہروں میں بستی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں علاقے کا کچھ حصہ (شقصم اور اقصائے چین) چین کو دیے جانے اور معاہدہ تاشقند کے تحت کچھ حصے بھارت کو دیے جانے نیز سن اکہتر اور اٹھانوے میں کچھ سرحدی علاقے بھارت کے قبضے میں چلے جانے کے باجود بھی گلگت بلتستان کا موجودہ رقبہ تقریباً خیبر پختونخوا کے برابر اور آزاد جموں کشمیر سے تقریباً چھ گنا بڑا یعنی اٹھائیس ہزار ایک سو چہتر مربع میل یا تقریبا تہتر ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے، دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 چوٹیوں کے علاوہ چھ ہزار میٹر بلندی کی کئی درجن برف پوش اور فلک شگاف چوٹیوں، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش کے عظیم ترین پہاڑی سلسلوں ، دنیا میں گلیشئرز کا دوسرا بڑا ذخیرہ، دنیا کی سب سے زیادہ بلندی پر موجود سب سے بڑا میدان دیوسائی (پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا سرسبز رقبہ)، سطح مرتفع پر پہاڑی سلسلوں کے درمیان دنیا کا سب سے بلند ترین صحرا بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ سیراب کرنے والے دریائے سندھ کا آبی ذخیرہ نیز درجنوں خوب صورت جھیلیں اور آبشاریں اور چشمے اسی علاقے میں موجود ہیں۔ نادر آبی و جنگلی حیات کے علاوہ طرح طرح کے پھولوں، پھلوں اور قدرتی معدنیات اور قیمتی پتھروں کا ذخیرہ بھی یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ علاقہ دنیا کے بڑے آبی ذخائر میں سے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ بلند پہاڑی ندیوں سے گرنے والے پانی سے براہ راست یا ڈیم بنا کر اس سے ہزاروں میگاواٹ نہایت سستی بجلی پیدا کرنے کی پوٹینشل موجود ہے۔
مختلف پہاڑی وادیوں میں آباد گلگت بلتستان تاریخی و ثقافتی طور پر مختلف تہذیبوں ، مذاہب، نسلوں اور زبانوں کا مرکز رہا ہے۔ اس میں اسلام سے قبل کے مذاہب بدھ مت اور بون مت کے تہذیبی آثار آج بھی محفوظ ہیں۔ آج بھی مختلف نسلی گروہ، زبانیں، اور متنوع ثقافتی روایات سے یہ علاقہ اپنی قدرتی خوبصورتی کو تہذیبی رنگوں سے رنگا رنگ کر رہا ہے۔ بلتی، شینا، بروشاسکی، واخی، کھوار سمیت ہندکو، کشمیری، پشتو زبانیں یہاں بولنے والے موجود ہیں۔تعلیمی اداروں کے فقدان کے باوجود شرح خواندگی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی شرح پاکستان کے دیگر علاقوں سے زیادہ بلند ہے ، سماجی طور پر جرائم کی شرح بہت کم ہے ۔ جبکہ مذہبی ہم آہنگی اور امن کا گہوارہ یہ علاقہ پاکستان بھر کے لیے مثال ہے ۔ یہاں شیعہ سنی، اہل حدیث، اسماعیلی اور نوربخشی سبھی بھائیوں کی طرح رہتے ہیں ۔ پاکستان کی بڑی قومی سیاسی جماعتیں یہاں کی مقامی سیاست میں حصہ لیتی ہیں جبکہ چند قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔
گلگت کے چند بنیادی مسائل
گلگت بلتستان کے تقریباً عمومی طور پر لوگ اوسط درجے کے ہیں جن کا ذریعہ معاش زراعت، مال مویشی، یا ملازمت پیشہ ہے۔ جبکہ تجارت و سیاحت کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ تعلیم، صحت، صنعت و تجارت اور سیاحت کے لیے انفراسٹرکچر کا شدید فقدان ہے۔ 2002میں قراقرم یونی ورسٹی بننے تک علاقے میں ایک بھی قابل ذکر اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ جبکہ ابھی بھی کوئی میڈیکل کالج، انجینئرگ کالج سمیت کوئی بھی پروفیشنل ادارہ قائم نہیں ہے۔ معدنیات، کوہ پیمائی، سیاحت، تحقیق، زراعت اور معدنیات سمیت اہم شعبوں میں کوئی قابل ذکر سرمایہ کاری نہیں گئی۔
جغرافیائی طور پر یہ متنازعہ علاقہ اپنے اطراف میں چار ممالک (پاکستان، چین، انڈیا اور افغانستان جن میں سے تین ایٹمی طاقتیں ہیں، کے درمیان گھرا ہوا ہے، جبکہ ترکمانستان کے راستے روس سے بھی قریب تر ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کا ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اسی متنازعہ خطے سے گزر رہا ہے۔راہداری کے ذریعے چائنہ کو پاکستان سے ملانے کے لیے پانچ سو کلومیٹر سے زائد کا راستہ گلگت بلتستان سے ہی گزر کر بن رہا ہے۔ سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں سی پیک کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ مگر اس اہم منصوبے کے نہ کسی اہم بین الممالک اجلاس میں گلگت بلتستان کو سٹیک ہولڈر کے طور پر حیثیت دی گئی اور نہ ہی یہاں باقی صوبوں کی طرح یہاں منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔ جو لوگوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ قانون و انصاف کی فراہمی کے لیے موجود نظام جس میں چیف کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ اور سیشن کورٹ شامل ہیں بہت ہی ناقص، سست اور ریاستی جبر سے متاثرہ ہے۔ اور علاقے میں عوام کے لیے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ قانون و انصاف کے کمزور اور طرفدار نظام کے باعث علاقے میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر بلا معاوضہ پاکستان کے سول و عسکری اداروں کا قبضہ کرنا، آزادی اظہار پر قدغن لگاتےہوئے سیاسی مسائل و حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے دسیوں سماجی کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کرنا اس کی چند واضح مثالیں ہیں۔ ان مسائل پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی کئی رپورٹوں میں تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
کورٹس کا بنیادی کام آئین کی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے مگر آئین پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ تسلیم ہی نہیں کرتا۔ لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں آئین پاکستان اور تعزایرات پاکستان اور پاکستانی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق بھی ہوتا ہے ۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کا استعال ہر اس شخص کے خلاف کیا جاتا ہے جو علاقے کے حقوق کی آواز اٹھائے چنانچہ بابا جان، حسنین رمل، افتخار احمد سمیت اہم سماجی کارکنوں کو گزشتہ کئی سالوں سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ مگر اس کے برعکس گلگت بلتستان کے مفلوج کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کے شہریوں پر نہیں ہوتا جس کے کئی نظائر موجود ہیں۔
چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں پبلک سروس کمیش نہ ہونے کے باعث کلیدی عہدوں کے لیے غیر مقامی اور نچلے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے مقامی افراد کا کوٹہ مختص کرنے کے مسائل تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔
سن اکہتر اور اٹھانوے کی جنگوں سے متاثر ہونے والے سرحدی مہاجرین کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مہاجرین بے گھر ہو کر در بدر ہو رہے ہیں۔ واہگہ بارڈر اور آزاد کشمیر بارڈر پر سرحد کی دونوں طرف تجارت بھی اور آمد و رفت بھی جاری ہے مگر بلتستان کے سرحدی علاقے کھرمنگ کرگل بارڈر مکمل طور پر تجارت و آمد و رفت کے لیے بند ہیں جس کے باعث آزادی اور جنگوں کے دوران بچھڑنے والے خاندان دونوں طرف بہت ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔
سوست بارڈر کے محصولات سمیت تمام اہم محاصل وفاق لے جاتا ہے جبکہ شاہراہ قراقرم، دریائے سندھ، دیامر بھاشا ڈیم اور سالانہ لاکھوں بین الاقوامی سیاحوں سے لیے جانے والے ریوینو سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ متنازعہ علاقے ہونے کے باعث ان سب پر اولین حق علاقے کا ہی بنتا ہے۔ حالانکہ ان سارے وسائل کی باقاعدہ رائلٹی علاقے کو ملنی چاہیے۔
حالیہ احتجاج کی شدت کی بنیادی وجہ یہی وہ سارے عوامل ہیں جو علاقے کے احساس محرومی میں اضافہ کرنے اور لوگوں کے غم و غصے کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ وفاق کو گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری کے لیے فوری طور پر سیاسی اصلاحات کے عمل کو تیز کر کے اس حساس سرحدی اور تزویراتی علاقے کو مستحکم کرنے میں ستر سال گزرنے کے باوجود مزید تاخیری حربوں سے کام نہیں لینا چاہیے، کیونکہ خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم ترین عنصر سمجھی جانے والی چین پاکستان اقتصادری راہداری مضبوط و مستحکم اور پُرامن گلگت بلتستان میں ہی مضمر ہے۔ ہر احتجاج اور تحریک کو سازش کے کھاتے میں ڈال کر پاکستان کے کسی بھی آئینی صوبے سے بڑھ کر اس کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دینے والے علاقے کی بے لوث محبت و وفاداری پر سوال اٹھانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گلگت بلتستان کے سنجیدہ مسائل کو فوری حل کرے۔ پاکستان کو گلگت بلتستان کے صرف وسائل اور خوبصورتی سے دلچسپی رکھنے کے علاوہ یہاں بنیادی مسائل و حقوق پر توجہ دینی ہوگی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn