Qalamkar Website Header Image

باوثوق ذرائع سےملنےوالی خبریں اورلیہ والی سنسنی خیز پوسٹ

کچھ دن پہلے لیہ کے حوالہ سے ایک دوست نے کچھ معلومات دیں۔ یہ معلومات بہت دلچسپ اور سنسنی خیز تھیں۔ دوست چونکہ انتہائی قریبی تھا اس لئے نہ تو ان معلومات کی تصدیق کرنے کی کوشش کی اور نہ یہ سوچنے کی زحمت کی کہ دوست کے فراہم کردہ اعداد و شمار حقیقی کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کھٹاک سے ایک پوسٹ لکھی اور دوستوں کو بھیج دی۔ بعد ازاں لیہ یا اس کے نزدیکی علاقوں میں رہنے والے دوستوں نے پوسٹ میں اعداد و شمار کی مضحکہ خیزی کی طرف توجہ دلائی تو بہت پشیمانی ہوئی کہ کیونکر ایک نوجوان دوست کی دی ہوئی معلومات کی اپنے طور پر تصدیق نہیں کی اور بڑا ظلم یہ کیا کہ اس کی بنیاد پر ایک عدد سنسنی خیز پوسٹ لکھ کر سب کو جھنجھوڑنے کی کوشش کا "فریضہ” بھی ادا کر دیا۔

سب سے پہلے تو جن دوستوں کو میری لکھی لیہ والی پوسٹ پڑھ تکلیف پہنچی یا دکھ ہوا۔ ان سے بہت ہی معذرت خواہ ہوں اور تمام دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہیں ہوگا۔ اس ایک دفعہ کی غلطی پر پشیمانی ہے اور آپ سے درگزر کی استدعا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  انسانی ڈی این اے کی تاریخ

باوثوق ذرائع سے ملنے والی خبریں:۔
یہ درست ہے کہ کسی بھی واقعہ کے ظہور پذیر ہوتے وقت ہر لکھنے والا شخص نہ تو اس موقع پر موجود ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا موجود ہونا لازمی ہے۔ اس کی معلومات کا ذریعہ وہ ذرائع ہوتے ہیں جن کے ساتھ لکھاری کچھ عرصہ سے عرصہ دراز سے کام کر رہا ہوتا ہے۔ عمومی طریقہ تو یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی خبر جب ملتی ہے تو لکھاری اس کی اپنے طور پر بھی تصدیق کرتا ہے مگر کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے ذرائع کے مستند ہونے پر یقین رکھتے ہوئے اس کی فراہم کردہ معلومات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنا بیانیہ تحریر کر لیتا ہے۔ اور اگر معلومات ایسی ہوں جن میں کسی پر الزام نہ ہو یا وہ کسی فریق کو متاثر نہ کرتی ہوں تو لکھنے والا سستی کا مظاہری کرتے ہوئے ان معلومات کو اپنی تحریر میں آگے بڑھا دیتا ہے (جیسا کہ لیہ والی پوسٹ میں اس راقم نے کیا)۔

اگرچہ یہ طرزعمل صحافت کے بنیادی اصولوں کے برخلاف ہے مگر ایسا ہو جاتا ہے جو اگرچہ ہونا نہیں چاہئے۔ اسی لئے اس واقعہ کے بعد اس راقم نے تو پکا تہیہ کر لیا ہے کہ باوثوق ذرائع کی بھی ایسی کی تیسی۔ آئندہ سے ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر بھی تصدیق کے بغیر کچھ نہیں لکھنا۔

یہ بھی پڑھئے:  رفعت عباس کا "لونی شہر" - وقاص بلوچ

خبر ملنے کے ذرائع میں کوئی متعلقہ انسان بھی ہو سکتا ہے، کوئی اخبار، کوئی کتاب یا کوئی رسالہ، میگزین وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ سب باوثوق نہیں بلکہ قابل تصدیق ذرائع شمار ہونے چاہئیں۔ البتہ اگر واقعہ ظہور ہوتے ٹی وی، ریڈیو نشریات خصوصاً عالمی نشریاتی اور مستند نیوز ایجنسیوں میں نشر ہو رہا ہو تو انہیں کافی حد تک مستند ذریعہ قرار دے کر ان کی بنیاد پر تحریر حوالہ قلم کی جا سکتی ہے۔

یہ حق کسی کے لئے کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ کسی اخبار، میگزین، رسالہ، یا دیگر ذرائع نشریات کی کسی خبر کو چیلنج کر سکے اور اپنے دوستوں کے اسی حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ راقم اپنے لیہ والی پوسٹ سے دستبردار ہوتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس