عظیم سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا میں جو دنیا چھوڑ کے جا رہا ہوں ، اس کے تین مسائل ہیں
پہلا پانی
دوسرا دنیا کو خوراک کی فراہمی اور
تیسرا گلوبل وارمنگ
ماہرین کے مطابق تیزی سے کم ہوتے پانی کی اگر یہی صورت حال برقرار رہتی ہے تو 2030ء تک پانی کی کمی میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر استعمال ہونے والے اجناس کی مقدار میں 30 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اندازہ یہ بھی لگایا گیا ہے کہ 2025ء تک دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ افراد ایسے علاقوں میں (بشمول پاکستان) رہائش پذیر ہوں گے جہاں پانی کی کمی ہو گی جب کہ دو تہائی آبادی ایسے علاقوں میں موجود ہو گی جہاں صاف پانی میسر نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے 780 ملین افراد صاف پانی سے محروم ہیں
پانی کی کمی کا مسئلہ پاکستان میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پانی ہمارے ملک میں سیاست زدہ ہوگیا ہے۔ کوئی حکومت, اسٹیبلشمنٹ, کوئی ادارہ پانی کے حوالے سے دلیرانہ فیصلہ لینے سے قاصر ہے . ان سب کو دلچسپی ہے تو صرف اس بات میں کہ اگلی حکومت کون بنائے گا اور اگلی حکومت چلانے میں کس کی مرضی چلے گی۔ کسی کو پرواہ نہیں ہے کہ پانی کے بغیر 2025ء کا پاکستان ایک دہکتا ہوا تندور بن جائے گا اور ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوں گے.
ہمارا 85 فیصد پانی انڈین مقبوضہ کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے۔ کشمیر میں تو انڈیا نے خود ڈیم بنانا شروع کر دیے ہیں جب کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس کو اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری طرف انڈیا افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے تاکہ پاکستان میں پانی کا بحران شدید ترین ہو جائے۔ انڈیا کی ہر حکومت کا ہمیشہ سے یہ مؤقف ہوتا ہے کہ پاکستان اپنا پانی ضائع کرتا ہے اور انڈیا کے اس مؤقف کو اب پوری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے
کیا کسی سیاست دان, اسٹیبلشمنٹ کے کسی بااختیار، عدلیہ کے کسی سپوت اور بیوروکریسی کے کسی افسر بالا کو اس بات کی فکر ہے کہ رواں سال پورے ملک کو 38 فیصد پانی کم ملے گا۔ ہم جہاں پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہیں اگر وہاں بھی 38% پانی کم ملے گا تو پھر ہم کہاں پہنچیں گے۔ کیا کسی کو اس کا احساس ہے . کیا کوئی اس پر سوچ رہا ہے
کیا کسی بااختیار مگر بے حس کو یہ معلومات حاصل نہیں ہیں کہ انڈیا کے پاس اس وقت 750 ملین ایکٹر فٹ پانی ہے جس میں سے اس نے 287 ملین ایکٹر فٹ پانی کو محفوظ کرلیا ہے جب کہ پاکستان کے پاس تقریبا” 140ملین ایکٹر فٹ پانی ہے اور سرکاری اعداد وشمارکے مطابق ہم نے 12.6 ملین ایکٹر فٹ پانی محفوظ کیا ہے یعنی اپنے کل پانی کا صرف 7% جبکہ دوسری جانب انڈیا نے اپنے 30% پانی کو نہ صرف محفوظ کرلیا ہے بلکہ وہ مزید 500 ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے 50% پانی کو محفوظ کرے گا
اس وقت پاکستان کا کوئی حصہ بشمول لاہور, اسلام آباد, کراچی ایسا نہیں ہے جہاں صاف پانی میسر ہو جب کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمارے گلیشرز پگھل رہے ہیں، بارشوں کے طریقہ کار میں تبدیلی ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہماری زراعت بھی مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی ۔ ہم تو اتنے بےحس ہیں کہ ہم نے 2010ء، 2011ء، اور 2014,ء کے سیلابوں میں 112 بلین ڈالر کا پانی ضائع کیا جس پر ہمارے حکمرانوں اور ہمارے لیڈروں نے کبھی افسوس تک نہیں کیا۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کے حساب سے ایک ملین ایکٹر فٹ پانی ایک ارب ڈالر کے برابر ہوتا ہے۔
بھارتی ایماء پر ہمارے ہاں ڈیموں کی تعمیر کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے ۔ ہمیں جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں اپنے پانی کو محفوظ کرنا ہو گا اور علاقائی، فرقہ وارانہ، لسانی تعصبات سے بالاتر ہوکر ایک جان بن کر پانی کے شدید ترین بحران کے حل کے لیے فورا فعال ہونا ہو گا ورنہ یہ یاد رہے کہ 2025ء یعنی صرف 7 سال بعد ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت ترسنے والے یہی ہم جیسے عام لوگ ہی ہوں گے کیونکہ سیاست دان, اسٹیبلشمنٹ, ملا, بیوروکریسی والے تو فلائیٹ پکڑ کر محفوظ ممالک میں عیش کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn