9 جولائی 1964ء تا 9 جولائی 2018ء ، 54 سال مگر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا قتل ابھی بھی بے نقاب نہیں ہو سکا کیونکہ قاتلوں کے قدموں کے نشان خود ساختہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خاں تک پہنچتے ہیں.
یہ 2 اگست ہے 1971ء کا دن تھا جب ایک خبر پہلی دفعہ شائع ہوئی کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت جنرل ایوب کی تشریف پر لات مار کے اسے اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا اور وہ ایبٹ آباد میں تنہائی کے دن گزار رہا تھا ۔۔۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کی یہ خبر بھی تب ہی ممکن ہوئی کہ جنرل ایوب کے خلاف اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ جنرل یحییٰ خاں نے اس خبر پر اعتراض نہیں کیا ورنہ کس مائی کے لعل میں یہ جرأت رہی ہے کہ وہ جنرل ایوب خاں جیسے ظالم آمر کے خلاف کچھ لکھ سکے۔
اس سلسلہ میں درج ذیل نقاط کی طرف توجہ دیجئیے تو بآسانی اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ مادرِ ملت کی موت طبعی نہیں تھی:۔
1):۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح 7 جولائی 1964ء کو رات کے گیارہ بجے تک ایک شادی میں شریک تھیں اور وہ ہشاش بشاش تھیں جبکہ 9 جولائی کو اچانک یہ اعلان کر دیا گیا کہ وہ انتقال کر گئی ہیں۔
2):۔ غسل دینے والی خواتین کی راہنمائی کرنے والے ہدایت علی عرف کلو غسال نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے گہرے نشانات تھے اور ان کے پیٹ میں سوراخ بھی تھا جس سے خون اور پیپ بہہ رہی تھی۔ دیگر خواتین غسال نے بھی کہا تھا کہ محترمہ کے خون آلود کپڑے اس کے (ہدایت علی عرف کلو) پاس موجود ہیں، لیکن اس وقت کی حکومت نے نہ تو اس کی تردید کی اور نہ ہی اس معاملے میں انکوائری کی ہدایت کی گئی
3):۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تدفین کے وقت ایوب خاں نے پوری رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی اور بھرپور کوشش کی گئی کہ انہیں میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے جبکہ اس وقت کے کمشنر کراچی نے حکومت کو لکھا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کی تدفین مزار قائد اعظم کے احاطہ میں نہ کی گئی تو لاکھوں کا ہجوم بےقابو ہو جائے گا اور حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا ۔۔ صرف کمشنر کراچی کے اصرار پر ہی حکومت کو مادرِ ملت کی تدفین مزار قائد کے احاطہ میں کرنے کی اجازت دینا پڑی
4):۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تجہیز و تکفین کے وقت عوام کو جنازے کے قریب نہیں جانے دیا گیا اور یہاں تک کہ انہیں سپرد خاک کرنے تک ان کے آخری دیدار کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران جو آخری دیدار کرنا چاہتے تھے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس پھینکی گئی۔
5):۔ جنوری 1972 میں غلام سرور نامی ایک شخص نے محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست سماعت کے لئے دائر کی۔ اس درخواست کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ ممتاز محمد بیگ نے ایک شخص غلام سرور ملک کی دفعہ 176 ضابطہ فوجداری کے تحت درخواست کی سماعت کے لیے 17جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی ۔۔ غلام سرور ملک نے اپنی درخواست میں کہا کہ "میں پاکستان کا ایک معزز شہری ہوں اور محترمہ فاطمہ جناح سے مجھے بے انتہا عقیدت ہے، مرحومہ قوم کی معمار اور عظیم قائد تھیں۔ انہوں نے تمام زندگی جمہوریت اور قانون کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی۔ 1964ء میں جب انہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ عوام کی امیدوں کا مرکزبن گئیں۔ وہ اس ٹولے (جنرل ایوب خاں اینڈ کمپنی) کی راہ میں جو ہر صورت اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا تھا، زبردست رکاوٹ تھیں اور یہ ٹولہ ہر قیمت پر ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مادر ملت کی موت کے وقت بھی یہ افواہیں عام تھیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں لیکن ان افواہوں کو دبا دیا گیا”۔ غلام سرور ملک نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ ” مجھے یہ تشویش رہی ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو کہیں قتل نہ کیا گیا ہو” ۔۔ بعد ازاں حسن اے شیخ اور دیگر معزز ہستیوں نے اس سلسلے میں اپنے شک و شبہ کا اظہار بھی کیا تھا اور یہ معاملہ اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا اور اداریے بھی لکھے گئے۔
لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، مرتضی بھٹو۔۔۔۔ اور دیگر بے شمار سیاستدانوں کی طرح محترمہ فاطمہ جناح کا قتل کیس بھی ہمارے نمبر ون اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن کر ہمیشہ دمکتا رہے گا ۔۔
یہ ہماری ملی تاریخ ہے اور اس سے ہم نے ہی سبق سیکھنا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn