اسلام امن کا مذہب ہے لیکن مسلمان کبھی بھی امن پسند ثابت نہیں ہوا۔ کم سے کم پاکستان میں تو ایسا ہی ہے۔ میں ہندو برادری کے ساتھ ہوئے ظلم کو کیسے نظر انداز کریں جس کا 14 سالہ مدعی بیان دے رہا ہے کہ اس نے پرنسپل کے خلاف "ایویں” ای بیان دے دیا۔ عیسائی ہوں یا ہندو اک عرصے سے زیر عتاب ہیں۔ پاکستانی سکھ شکر ادا کریں کہ انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاست کی پالیسی انہیں پروموٹ کرنے کی طرف راغب ہو چکی ورنہ کچھ قتل اور اغواء کے اکا دکا واقعات کے بعد ان کا حال بھی سندھ کے ہندوؤں جیسا ہوتا جہاں میاں مٹھا اور اس کے مرید ساری نوجوان ہندو دشیزاؤں کو قبول اسلام کروانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ان آنکھوں نے غیر مسلم اقلیتوں اور ریاست کے ناپسندیدہ مسلم فرقہ شیعہ لوگوں کے ساتھ 1980ء سے کیا کیا نہ ہوتے دیکھا۔ اقلیتوں کی بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں، مندروں اور گرجا گھروں کو گرا دیا گیا۔ اس “کارِ خیر” میں حصہ لینے والے جنونیوں میں اکثریت ان کی رہی ہے جن کو حلال و حرام کی تمیز تک نہیں ہوتی، مسجد جانا تو درکنار شاید کلمہ بھی صحیح تلفظ کے ساتھ نہ پڑھ پاتے ہوں۔ حیرانی یہ ہے کہ غیر مسلموں اور مخالف فرقہ کے ساتھ یہ سب کرنے والے نعرے اسلام اور مقدسات کے لگاتے رہے مگر عمل قرآن اور پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے برعکس کرتے رہے۔
جنرل ضیاء کے زبردستی تھونپے ہوئے خود ساختہ مذہبی نظریہ کی وجہ سے معاشرہ کب انسانیت سے خالی ہوتا چلا گیا، پتہ ہی نہیں چلا۔ آج اسلام کے نام پہ جنگی جنون، غیر مسلمانوں کو زبردستی مسلمان بنانا، الزام کی تصدیق کئے بغیر قتل کر دینا، عبادت گاہیں جلا دینا وغیرہ ہماری معاشرتی نفسیات کی عکاس بن چکی ہیں۔
اب اس معاشرہ کو مذہبی صالح کی نہیں بلکہ کمال اتا ترک جیسے سخت لادین راہنما کی ضرورت ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn