پانی کے لیے بالآخر پاکستان کو انڈیا پر ایٹمی حملہ کرنا ہی پڑے گا. آئیں آپ کو بتاتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کس طرح جنگ چھیڑ چکا ہے اور اس جنگ میں بھارت کو مسلسل کامیابی مل رہی ہے جب کہ پاکستان کی عوام اور اس کے حکمران گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں۔ اور اس غلط فہمی میں چپ سادھ رکھی ہے کہ کون سا بھارت نے پاکستان کے خلاف میدان جنگ اپنی فوج اتار دی ہے۔ توقع کے عین مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایات اور شواہد کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ یہ پاکستان کی بھارت سے سفارتی محاذ پر ایک بڑی شکست ہے۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009 میں شروع ہوئی جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور ن لیگ مضبوط اپوزیشن تھی۔2011 کے بعد دو سال تک یہ کیس عالمی عدالت میں چلتا رہا لیکن بالآخر عالمی ثالثی عدالت نے نہ صرف پاکستان کے اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔
یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیا جارہا تھا اور خارجہ امور کا قلمدان بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پاس تھا۔ بھارت نوازی کی داستان صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ دریائے سندھ پر تحقیق سے پتہ چلا کہ انڈیا نے ڈیم بنا کر دریائے سندھ کا سارا پانی روک لیا، بنائے جانے والے متنازعہ پن بجلی کے منصوبے نیموباز گو کے خلاف بھی وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق عالمی عدالت میں جانے سے روک دیا گیا کہ “خوامخواہ اس کیس پر وقت ضائع ہوگا”. بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا ، یہی نہیں اس دوران “چٹک” کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے.
گزشتہ 10 سال کے عرصہ میں زراعت اور آبی وسائل کی زبوں حالی کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے. ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا یہاں سے اندازہ کر لیں کہ اس 10 سالہ گزشتہ دور میں بھارت صرف دریائے سندھ پر چودہ چھوٹے ڈیم اور دو بڑے ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگلا ڈیم اکتوبر 2017ء سے خالی پڑا ہے جب کہ تربیلا ڈیم بھی اس وقت بارش کا محتاج ہے۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی، پانی کے حوالہ سے ہمارا مستقبل بہت دردناک ہے۔ جیسا کہ: 1): دو سال قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لئیے محتاج کر دے گا اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے. 2):- بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11 ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ 3): دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52 ڈیم بنا رہا ہے 4): دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے 5): اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔ 6): افغانستان بھی دریائے کابل پر 15 بڑے ڈیم بنانے کے منصوبوں پر کام شروع کر چکا ہے جس کے لیے مالی اور تکنیکی سپورٹ انڈیا فراہم کرے گا اور یہ سب کچھ ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے، لیکن کسی کو اس سے غرض نہیں، کوئی ووٹرز کو عزت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، کوئی مذہب پر سیاست کر رہا ہے, کسی کو الیکشن میں دھاندلی سب سے بڑا مسئلہ نظر آتی ہے تو کوئی مر چکے لیڈروں کے نام پر ملک کو لوٹ رہا ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس سے ہی فرصت نہیں کہ ہم افغانستان میں تزاویزاتی گہرائیوں جیسے ناممکن اور احمقانہ اہداف کی تکمیل کے لئیے کتنے مزید "اچھے طالبان” بنا سکتے ہیں
یاد رہے کہ تیزی سے ختم ہوتے پانی کا یہ مسئلہ اگر کسی پارٹی کے منشور میں شامل نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار ہم ہیں۔ عوام کے ووٹ دینے کے معیار نالیاں پکی کرنا، دھاندلی کے خلاف ناچ گانے والے دھرنے, جعلی تبدیلی کے لیے نعرہ بازی, قیمے والا نان یا نام نہاد نمائشی سکیمیں ہیں، دراصل ہم ذہنی غلام بن چکے ہیں اور بکاؤ مین اسٹریم میڈیا نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ان سیاسی خداؤں کے تابع کر رکھی ہیں۔ مجھے شدید حیرت ہوتی ہے کہ اگر مجھ جیسے کم علم کو یہ حقائق ملکی مستقبل کے لیے فکر مند کرسکتے ہیں تو ہمارے نام نہاد دانشور اور میڈیا ہاؤسز کیوں ان موضوعات پر بات نہیں کرتے؟
شاید اس لیے کہ ہم بطورِ عوام ان موضوعات پر بات کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مجھے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے جفادریوں سے گلہ نہیں کیوں کہ ان کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں اور خدانخواستہ پاکستان پر کوئی بھی آنچ آئی تو یہ سب اسے چھوڑ کر باہر بھاگنے میں دیر نہیں کریں گے۔ مجھے شکوہ عام لوگوں سے ہے جنہوں نے یہاں رہنا ہے، خدا وہ دن نہ دکھائے جب پانی کے گھونٹ کے لیے ایک بھائی دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہو۔
بھارت یہ سب اپنے کسانوں کے لیے نہیں کر رہا، بلکہ اس کا مقصد پاکستان کو بنجر کرکے اس کی بائیس کروڑ عوام کو بھوکا اور پیاسا مارنا ہے، بھارت کو علم ہے کے پاکستان کی فوج سے جنگ چھیڑنا اپنی تباہی کے مترادف ہے، کیونکہ پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ اگر بھارت سے جنگ ہونے کی صورت میں اگر پاکستان کی سلامتی کو ذرا سا بھی خطرہ ہوا پاکستان ایٹم بم استعمال کرے گا، لہذا متبادل مگر زیادہ خطرناک حکمت عملی کے تحت اور انتہائی چالاکی کے ساتھ بھارت نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لئیے پانی کی جنگ شروع کر دی ہے اور اس جنگ میں بھارت کو نہ تو پاکستان کی فوج کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ ہی پاکستان کی 22 کروڑ عوام کا۔
پاکستان کی عوام یہ مت سمجھے کہ کیا ہوا اگر بھارت ہمارا پانی روک بھی لے تو ہمیں پینے کے لئیے پانی تو ملتا رہے گا، شاید عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ ان کے گھر میں کیا گیا بور پانی پینے کے لئیے اور زراعت کے لئیے ٹیوب ویل غیرہ ان کے لئے کافی ہیں، مگر میں آپ کو بتا دوں کہ اگر آپ کے دریاؤں کا پانی روک لیا گیا، تو آپ کے گھر میں کیا گیا بور اور ٹیوب ویل بھی آپ کو پانی دینا بند کر دے گا، کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح انتہائی نیچے چلی جائے گی۔ زمین اناج اگانا بند کر دے گی۔
پاکستان میں جو قحط سالی جنم لے گی وہ انتہائی خوفناک صورت اختیار کرجائے گی، اور اس تباہی کا تصور ہم پاکستانی بالکل نہیں کر سکتے البتہ اس کے بارے میں ہم پاکستانی عوام کو صومالیہ اور دیگر غریب افریقی قحط زدہ ممالک کے لوگ اور اب تو یمن کے لوگ بھی بتا سکتے ہیں جن کے ملک کو سعودیوں نے مسلسل بمباری کرکے قحط تک پہنچا دیا ہے. آنے والے اسی قحط کے پیش_ نظر بالاآخر پاکستان کو یا تو پیاسا مرنا ہوگا یا پھر ایٹمی جنگ میں مرنا ہوگا، دونوں صورتوں میں پاکستان اور اس کی عوام کو انتہائی دردناک دن دیکھنا پڑیں گے، اور یہ اسی صورت میں ہوگا کہ ہم ابھی بھی چپ رہیں اور مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کریں۔
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس صورت حال میں پاکستان کی فوج کچھ کرسکتی ہے تو یہ آپ کی بیوقوفی ہے، کیونکہ فوج صرف لڑنے کے لئے ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ فوج بھارت سے لڑسکتی ہے بھارت کے بنائے گئے ڈیموں کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنا سکتی ہے، مگر یہ مستقل حل نہیں، کیونکہ جواب میں ہمیں بھی میزائلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ رستہ دونوں ملکوں کی تباہی کا ہے, ہماری حکومتوں اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ہمیں مجبور کرنا ہوگا کہ سفارتی سطح پر بھارت کو یہ ڈیم بنانے اور پاکستان کا پانی روکنے سے باز رکھا جائے۔
پاکستان میں آنے والی نئی حکومت سے اور الیکشن لڑنے والے سارے امیدواروں سے عوام کا سب سے پہلا مطالبہ یہی ہونا چاہیے کہ ہمیں سڑکوں، پلوں، میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ڈیموں کی ضرورت ہے، جتنا پیسہ ان کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے اس کا ایک چوتھائی حصہ بھی اگر ڈیموں پر خرچ کیا جائے تو پاکستان میں زراعت کو فروغ ملے گا پانی کی کمی دور ہوگی بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوگی اور سستی بھی ملے گی، ہماری صنعتیں ترقی کریں گی کیونکہ ہماری آدھی سے زیادہ صنعتیں بند پڑی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ بجلی کی قلت ہے، صنعتیں چلیں گی تو برآمدات میں اضافہ ہوگا پاکستان ترقی کرے گا
یاد رہے بھارت نے پاکستان کو اس فائدے سے دور رکھنے کے لئیے ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں و میڈیا ہاؤسز کو براہ راست یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری معاوضہ دیتا آیا ہے، تاکہ حکومتیں ایک تو پاکستان کے لئے ڈیم نہ بنائیں اور دوسرا سفارتی سطح پر بھارت کو غیر قانونی ڈیم بنانے سے نہ روکیں۔ اور تیسرا یہ کہ پاکستانی خزانے کو فضول کاموں میں جھونکا جائے، پاکستان کے خزانے کو تباہ کرنے کے لئے بھی بھارتی حکومت پاکستانی حکمرانوں کو بھاری معاوضہ دیتی ہے۔
نوٹ: اس آرٹیکل کو جس صورت میں آپ سے شیئر کیا گیا ہے اسی صورت میں دوسروں تک پہنچائیں۔ تا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس بات کو سمجھے، کہ آپ کے گھر کی نالی اور آپ کی گلی پکی نہ بھی ہوئی تو آپ بھوکے پیاسے نہیں مریں گے۔ مگر ڈیم نہ بنے تو یا تو آپ کو پیاس مار دے گی یا پھر ایٹمی جنگ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn