Qalamkar Website Header Image

پرویز خٹک پر لگنے والے الزامات کا ایک جائزہ

شنید ہے کہ موجودہ وفاقی وزیر دفاع اور سابقہ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کے خلاف کرپشن اور بےضابطگیوں کی چلنے والی انکوائریاں کھڈے لائن لگ چکی ہیں اور ان کا مستقبل ردی کی ٹوکری ہی بنایا جا رہا ہے – یوں تو کرپشن کی انکوائریوں کا بہت زوروشور سیاسی مخالفین کے خلاف سندھ، بلوچستان، پنجاب اور مرکز میں لگایا گیا ہے لیکن سابق وزیر اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کی حکومت دنیا کی واحد حکومت تھی کہ جس میں اس کے اپنے وزیر (ضیاء اللہ آفریدی) نے اپنے وزیراعلیٰ پر کرپشن کے الزامات لگائے اور سابق وزیراعلیٰ نے جواب میں اپنی کابینہ کے وزیر پر ویسے ہی الزامات لگا دئیے تھے –

قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ ضیاء اللہ آفریدی کے علاوہ بھی جاوید نسیم کی قیادت میں نصف درجن پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے میڈیا میں آکر وزیراعلیٰ اور وزراء پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے لیکن ان الزامات کی تحقیقات ہوئیں اور نہ ان ایم پی ایز کو پارٹی سے نکالا گیا تھا – اسی طرح شیرپاؤ صاحب کی پارٹی کے وزراء کو کرپشن کا الزام لگا کر نکالا گیا اور پھر منتیں کرکے دوبارہ کابینہ میں شامل کیا گیا لیکن ان الزامات کا نیب نے نوٹس لیا اور نہ صوبائی احتساب کمیشن نے ۔ ممبران اسمبلی کے علاوہ پرویز خٹک کی حکومت پر یہ صوبہ کے چیف سیکرٹری نے بھی اپنے وزیراعلیٰ کے خلاف بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر باقاعدہ خط لکھا تھا – مزے کی بات یہ ہے کہ بعد میں وہی چیف سیکرٹری صاحب الیکشن 2018ء میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ٹکٹ تقسیم کرتے رہے –

سینیٹ کے گزشتہ انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا اسمبلی میں 20 سے زائد ایم پی ایز (بشمول ایک وزیر اور ایک مشیر) نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیے مگر اس صاف اور واضح ثبوت کے باوجود بھی الیکشن کمیشن اور نیب نے مٹی پاؤ پالیسی سے کام لیا حالانکہ خود عمران خاں نے بھی اپنے 14 امیدواروں پر لوٹا ہونے کے الزامات عائد کئے تھے – پیڈو (PEDO) بجلی پیدا کرنے والا ادارہ ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تین سو (300) ڈیم بنائیں گے ۔ ڈیم تو وہ ایک بھی نہ بناسکے الٹا صوبے کو سالانہ اربوں روپے منافع دینے والے اس ادارے کا ستیاناس کردیا گیا – وجہ یہ تھی کہ اسد عمر صاحب کے ایک بندے کو میرٹ کے خلاف بھاری تنخواہ کے عوض غیرقانونی طور پر اس کا سربراہ بنایا گیا – ادارے کے ملازمین عدالت میں گئے اور بالآخر پشاور ہائی کورٹ نے ان کی تقرری کو غیرقانونی قرار دے دیا ۔

اگر تحقیق کی جائے تو پتہ لگ جائے گا کہ پچھلے ساڑھے 5 سالوں کے دوران یہ ادارہ بجلی کا کوئی منصوبہ کیوں تعمیر نہ کرسکا اور اس میں کیا بے قاعدگیاں ہوتی رہیں لیکن نیب حرکت میں نہیں آ رہا کیونکہ پرویز خٹک کے سامنے شاید اس کے پر جلتے ہیں – پرویز خٹک کے خلاف ایک انکوائری یہ بھی بنتی ہے کہ انہوں نے کرپشن کے خاتمے کے نام پر صوبائی احتساب کمیشن کا من پسند قانون بنا کر من پسند ڈی جی مقرر کیا تھا لیکن جب انہوں نے وزیراعلیٰ اور وزراء کے خلاف کچھ انکوائری کرنے کی کوشش کی تو ان کی چھٹی کرادی گئی ۔ پھر باقی ڈھائی سال کے عرصہ وزارت اعلی کے دوران دوسرا سربراہ ہی مقرر نہیں کیا گیا حالانکہ پرویز خٹک حکومت کے اپنے بنائے ہوئے قانون کی رو سے 3 مہینے کے اندر نئے سربراہ کا تقرر لازمی تھا ۔ البتہ پرویز خٹک نے مستقل سربراہ مقرر کرنے کی بجائے خلاف قانون ایک شخص کو قائم مقام سربراہ احتساب سیل ضرور بنایا گیا – اس قائم مقام سربراہ کے ذریعہ پرویز خٹک نے اپنے سیاسی مخالفین کو بلیک میل ضرور کیا ۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ خیبر پختونخواہ احتساب کا شاید واحد ادارہ تھا کہ جس کے اپنے ملازمین کی تقرریاں خلاف قانون ہوئی تھیں ۔ سرکاری خزانے کے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ ادارہ ضیاء اللہ آفریدی کے سوا پی ٹی آئی تو کیا اے این پی حکومت کے بھی کسی کرپشن کے کیس کا نوٹس تک نہ لے سکا ۔ اگر سپریم کورٹ خیبر پختونخواہ صوبائی احتساب کمیشن کے معاملات کا سوموٹو لے لے تو پتہ چل جائے گا کہ احتساب کے نام پر کتنا بڑا فراڈ کیا گیا ہے ۔ احتساب کمیشن کے علاوہ پرویز خٹک نے اینٹی کرپشن کے محکمے کا سربراہ بھی اپنے سیکورٹی آفیسر کو لگادیا تھا اس طرح خیبر پختونخوا کے احتساب کے سب ادارے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی جیب میں موجود رہے لیکن نیب سمیت کسی ادارے کو اس شدید ترین بے ضابطگی پر نوٹس لینے کی جرأت نہیں ہو سکی – بلین ٹری سونامی کے نام پر جو فراڈ ہوا اس کی خبریں تو میڈیا میں چھپ بھی چکی ہیں –

یہ بھی پڑھئے:  آخری موقع، استعفی نواز شریف کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے | قمرالزمان بھٹی

اگر پنجاب میں ایسا کچھ ہوتا تو نیب نہ جانے اب تک کتنے لوگوں کو جیل بھیج چکا ہوتا ۔ محکمہ آب پاشی و زراعت کے ریکارڈز کے حساب سے دعویٰ تو بلین ٹریز کا کیا گیا تھا لیکن زمینی حقائق 50 کروڑ پودے ڈونڈھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ خریداری سے لے کر تقسیم تک اور پھر اس کی نگرانی کے لئے نگرانوں کی بھرتیوں تک ہر جگہ فراڈ کی خبریں کچھ اخباروں کی زینت بن گئی ہیں لیکن نیب کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے کیونکہ ان کے لئے اصل ٹارگٹ صرف تحریک انصاف کے مخالفین ہی ہیں – ایک اور بڑا اسکینڈل وزیر اعلی پرویز خٹک حکومت کے بارے بھی نیب میں جگہ نہیں پا سکا جب بینک آف خیبر کے ایم ڈی نے اپنے انچارج وزیرخزانہ کے خلاف اخبارات میں سرکاری خرچ سے اشتہار شائع کروا کر اپنے صوبائی وزیر پر سنگین الزامات لگائے اور وزیر نے جواب میں اپنے ماتحت ایم ڈی پر اشتہارات چھپوا دئیے – کئی مہینوں تک دونوں میں توتو میں میں چلتی رہی لیکن پھر جماعت اسلامی کے وزیر خزانہ اور عمران خان (جن کے حکم پر ایم ڈی لگایا گیا تھا اور جن سے اجازت لے کر انہوں نے وزیرکے خلاف اشتہار شائع کروایا تھا) کے مابین مک مکا ہوگیا اور معاملہ رفع دفع کردیا گیا لیکن افسوس کہ نیب اس حوالے سے خاموشی اختیار رکھے ہوئے ہے – اگر یہ الزامات جھوٹے بھی تھے تو سرکاری خزانہ سے ایم ڈی اور وزیر کس حساب سے ایک دوسرے کے خلاف اشتہارات چھپوا رہے تھے

یہ بھی پڑھئے:  اقتصادی راہداری منصوبہ.... بھارت اور ایران

پنجاب اور سندھ میں اورنج ٹرین, میٹرو بس منصوبوں میں نیب نے سارے ریکارڈز کو اوپر نیچے کر دیا لیکن نیب کی توجہ اس طرف کیوں نہیں جاتی کہ پرویز خٹک کی براہ راست نگرانی میں بننے والے پشاور میں کم فاصلے کے بی آر ٹی پروجیکٹ کی لاگت لاہور اور اسلام آباد کی میٹرو سے کہیں زیادہ قیمت پر پہنچ چکی ہے مگر اس کی تعمیر کے نام پر پورا پشاور کھنڈر بنادیا ۔ کیا نیب کے لئے یہ بے ضابطگی ہی نہیں کہ تین مرتبہ تو پشاور میٹرو ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی جبکہ ٹھیکیدار اور ٹھیکے کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں زبان زد عام ہیں ۔ واضح رہے کہ پشاور میٹرو بس میں جو ٹھیکیدار چوہدری لطیف & سنز ہے یہ وہی ہے جو پنجاب میں آشیانہ ہاؤسنگ میں شہباز شریف کے خلاف نیب کی معاونت کر رہا ہے – اگر کسی عدالت نے تحقیق کروائی تو پتہ چل جائے گا کہ درون خانہ یہ کون سا چکر چلا ہوا ہے لیکن نیب کو اس قدر واضح معاملہ پر نوٹس لینے کی فرصت ہی نہیں ہے – ابھی تازہ شنید یہی ہے کہ نیب نے پرویز خٹک کے خلاف کسی بھی الزام کا نوٹس تک لینے یا ان الزامات پر انکوائری کرنے کے لئے کوئی ارادہ تک ظاہر نہیں کیا ہے – احتساب کی ساری کاوشیں اگر صرف مخالفین کے لئے ہی ہیں تو پھر یہ یاد رہے کہ یہ احتساب نہیں ہے بلکہ وچوں گل کوئی ہور اے –

حالیہ بلاگ پوسٹس