اور لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے سینوں میں دل نہیں ہوتا – مالم جبہ سوات کے رہنے والوں کو 1970ء کی دہائی میں آنے والا برف کا طوفان کبھی نہیں بھولے گا جب درجنوں فٹ گہری برف باری کے دوران مقامی ریڈیو اسٹیشن کی کبھی کبھار چلنے والی نشریات کے دوران ہلکی بارش کی خبر پر بھی جشن منانا شروع کر دیتے تھے کیونکہ بارش سے برفباری میں کمی آتی تھی – سطح سمندر سے 8 ہزار 7 سو فٹ کی بلندی پر واقع مالم جبہ سوات کے حسین مقامات میں سے ایک ہے جو ضلعی صدر مقام سیدو شریف سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے ۔ ہر سال موسم سرما میں برفباری کے بعد سیاحوں کی بڑی تعداد اس حسین وادی کا رخ کرتی ہے کیونکہ مالم جبہ پاکستان میں برف کے کھیل کا واحد مرکز ہے ۔
تاہم برفباری زیادہ ہونے کے بعد مالم جبہ ٹاپ تک پہنچنے کے لئے گاڑیوں کے ٹائروں کو لوہے کی چین لگانا انتہائی ضروری ہے ۔ اس شدید ترین ریکارڈ ساز برفباری کے علاوہ وہاں کے مقامی ہسپتال میں ایک جرمن جوڑے کی محبت کی داستان بھی بہت مشہور ہے جو 1970ء کی طرح آج بھی ویسے ہی تر و تازہ ہے – برف کے اس طوفان میں مقامی ریڈیو سے شہریوں کو بار بار کہا جا رہا تھا کہ وہ خشک خوراک کے کافی زیادہ ذخیرے اپنے پاس محفوظ رکھیں کیونکہ موسم کی بہتری کی خبریں بہت موہوم ہیں –
یہ اسی برف کے طوفان کے درمیان کی بات ہے کہ مالم جبہ ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر شیر افگن کی رات کی ڈہوٹی تھی جہاں پر وہ جرمن سیاحوں کا جوڑا شدید بیماری میں لایا گیا تھا – مالم جبہ میں 2 ہزار سال سے پرانے مہاتما بدھ کے مجسمہ کو دیکھنے کے چکر میں ہینرچ ویسل (Heinrich Wessel) اور اس کی شریک حیات کرسٹینا عین برفباری میں پھنس کر رہ گئے تھے – مقامی لوگوں نے انہیں سخت سردی میں تقریبا” جاں بلب حالت میں مالم جبہ کے ہسپتال پہنچایا تھا – ڈاکٹر شیر افگن کچھ عرصہ جرمنی میں رہ چکا تھا اس لئے ٹوٹی پھوٹی جرمن زبان سمجھ لیتا تھا اور یوں وہ اس جوڑے کے ساتھ بات چیت بھی کر لیتا تھا جبکہ اس ادھیڑ عمر جوڑے کی انگریزی بھی بہت واجبی سی ہی تھی – اس ہسپتال میں انہیں زیر علاج رہتے تقریبا” 4 دن ہو چکے تھے مگر ان کی صحت بحال نہیں ہو سکی تھی –
اس کی بنیادی وجہ مالم جبہ کے راستوں کی بندش کی وجہ سے پیدا ہونے والی دعاؤں کی قلت اور ریڈیو اسٹیشن و ٹیلی فون ایکسچینجز کے بیٹھ جانے سے ایمرجنسی پیغام پہنچا نہ سکنے سے بھی تھا – ہسپتال کے اکلوتے وارڈ میں دونوں کی طبعیت جب بھی کچھ سنبھلتی تو دونوں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ سرگوشی میں باتیں کرتے جسے ہسپتال کا پیرامیڈیکل سٹاف سمجھنے سے قاصر تھا – اس دن ہسپتال میں شدید سردی کی وجہ سے نئے آنے والے اور پرانے مریضوں میں پہلے ہی 4 اموات ہو چکی تھیں اور سٹاف سمیت تمام مریض بھی بہت افسردہ تھے جبکہ ویسلز کی حالت بھی اچھی نہیں تھی – ڈاکٹر شیر افگن دعائیں کر رہا تھا کہ اس دن مزید کچھ برا نہ ہو کیونکہ مرنے والے چاروں مریضوں کی زندگی بچانے کی ناکام کوششوں نے اسے بہت تھکا بھی دیا تھا اور نفسیاتی طور پر پژمردہ کر دیا تھا – اس نفسیاتی دباؤ اور تھکن سے نڈھال ڈاکٹر شیر افگن اپنے کمرہ میں بیٹھا گرم قہوہ کا 13 واں پیالہ پی رہا تھا جب نرس دوڑتی ہوئی آئی اور اسے بتایا کہ ہینرچ کی سانس اکھڑ رہی ہے – یہ سنتے پی شیر افگن فورا” اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور آئی سی یو کی طرف بھاگا – جب وہ وہاں پہنچا تو اسے ہینرچ اپنے بیڈ کے جنگلہ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ادھ موئی حالت میں دہرا پڑا ملا – شیر افگن نے فورا” اپنے دوسرے ساتھیوں کو آواز دی اور ہنیرچ کو سیدھا کرکے اس کی ڈوبتی ہوئی نبض ٹٹولنے کی کوشش کی – شیر افگن کو یوں محسوس ہوا کہ ہینرچ کی نبض چلنے کی آخری دھمک بھی شاید اس کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ جیسے ہی ہینرچ نے اس کا ہاتھ تھاما اسے نبض ملنا بند ہو گیا – سانس چیک کی تو وہ بھی نہیں تھی جبکہ آنکھوں کی پتلیاں بھی الٹ چکی تھیں – ڈاکٹر شیر افگن اور اس کے ساتھیوں نے اسے مصنوعی سانس, سینے پر جھٹکے دینے جیسی کوششوں سے بھی ہینرچ کو بچانے کی 10 منٹ تک جاری رہنے والی کوشش شروع کر دی – اس دوران ان سب کو ہال کے دوسری طرف سے کرسٹینا کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں, "Warte, ich komme Warte, ich komme” – ہینرچ نے تو جواب نہیں دیا مگر شیر افگن نے کرسٹینا کو آوازیں دینا شروع کر دیں, "Kristina, warte. Ich komme” "Kristina, warte. Ich komme” ہینرچ کی جان بچانے کی وہ 10 منٹ طویل ناکام کوشش ختم ہوئی – ہینرچ کو مردہ تسلیم کر لیا گیا اور شیر افگن نے وہیں سے کرسٹینا کے بیڈ کی طرف بھاگا – جہاں اس کی ساتھی لیڈی ڈاکٹر مایوسی سے دوسری طرف جا رہی تھی – اس نے شیر افگن کی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلا دیا – شیر افگن کے قدم وہیں رک گئے اور وہ خالی نظروں سے اپنی ساتھی ڈاکٹر کی طرف دیکھنا شروع ہو گیا – لیڈی ڈاکٹر نے شیر افگن سے پوچھا کہ کرسٹینا مرنے سے پہلے کیا آوازیں دے رہی تھی, "Warte, ich komme” – شیر افگن نے ٹھنڈی سانس لے کر اپنی ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا کہ, "وہ جرمن بول رہی تھی اور کہہ رہی تھی – پلیز رکو, رکو – میرا انتظار کرو” – کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ڈاکٹر شیر افگن اتنا ڈپریس ہوا کہ اس نے مالم جبہ چھوڑ دیا اور پھر کبھی اسے ڈاکٹری کرتے نہیں دیکھا گیا – اور لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کے سینوں میں دل نہیں ہوتا –
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn