عورت رنگ ہے، پھول ہے، خوشبو ہے۔شفاف ندی ہے ۔ پھولوں کی مہک سے لدی باد صباء ہے۔رنگ ہے کائنات کا۔ قدرت کا شاہکار ہے ۔گر وجودِ زن نہیں تو جنت بھی نامکمل ہے۔تخلیقِ کائنات میں سب سے خوبصورت تخلیق ہے۔یہ ہے وہ عورت جسےرب نے نہایت محبت سے تخلیق کیا گیا اور اسے بہت اونچا مقام عطا کیا گیا
اوروہ کمزور ہے، لاچار ہے،کم عقل ہے، بے بس ہے۔
یہ ہے اس عورت کا نقشہ،جو ہمارے اس معاشرے میں پائی جاتی ہے اس معاشرے میں جسے مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے ۔ یہاں عورت محکوم ہے، دست نگر، ناقص العقل، جو اپنا اچھا برا خود نہیں سوچ سکتی، جو اپنے فیصلے کرنے کی عقل اور سمجھ نہیں رکھتی۔لیکن اسی کم عقل۔ بے وقوف، زمانے سے بے خبر عورت کے کاندھوں پر اس کے گھر کے نظام کی ذمہ داری ہےجس کا سربراہ مرد ہے جو مرد کا گھر کہلاتا ہے،اس مرد کی نسل کی تربیت ان کی تعلیم، آداب و اخلاق، سوچ کی نشوونماء کی ذمہ داری اسی پرہے۔
مرد کے سکون سے لے کر معاشرے کے بیلنس تک عورت ہی ذمہ دار ہے۔لیکن ان تمام ذمہ داروں کے باوجود وہ کچھ نہیں۔اس کی شخصیت، اس کی ذہنیت، اس کی صلاحیتیں، قابلِ ذکر نہیں ۔قابلِ تعریف نہیں۔اگر ذکر کیا بھی جاتا ہے تو اکثر و بیشتر اس کی ان کمیوں، کمزوریوں اور کمزور پہلوؤں کا جن کی وجہ بذاتِ خود وہ یا اس کی کوئی کمی نہیں بلکہ اس معاشرے کا عمومی رویہ اور سوچ ہے۔جب اسے ہمیشہ پابند رکھا جائیگا تو اس میں خود اعتمادی کی کمی ہوگی ہی۔جب ہمیشہ اسے احساس دلایا جائے گا کہ وہ کمزور ہے تو وہ کبھی اپنی ہمت، قوت کا احساس کرہی نہیں پائے گی۔جب اس کے کانوں میں بچپن سے انڈیلا جائے گا کہ عورت کم عقل، بےوقوف ہے وہ کبھی جان ہی نہیں پائے گی کہ وہ سوچ سکتی ہے فیصلہ درست بھی کرسکتی ہے۔
جب ہمیشہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چلایاجائے گا تو مشکل حالات میں،کسی مجبوری میں اکیلے چلتے اس کے پیر کانپیں گے وہ لڑکھڑائے گی ڈرے گی ہی۔
عورت کو ادھورا کہنے والے اکثر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ عورت کی تخلیق مرد کی پسلی سے ہوئی ہے تو پسلی اپنی جگہ سالم ہی ہے ادھورا اگر کوئی ہے تو وہ مرد ہے جسکی پسلی سے عورت تخلیق ہوئی۔
عورت کے حقوق کا نام لے کر اسے احساس دلانا کہ اس کے ساتھ کتنی ناانصافیاں ہوئی ہیں۔ وہ کتنی مجبور اور بے بس ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے جو عورت کو قبول نہیں کرنا چاہئیے۔
عورت نہ کبھی مجبور تھی نہ کمزور اور نہ ہی بے بس۔اگر مجبور ہوتی تو حضرت خدیجہ (ع) ہمیں تاریخ میں بزنس وومن کے طور کبھی نہ نظر آتیں وہ بھی اس معاشرے میں جسے دورِ جہالت کا معاشرہ کہا جاتا ہے جہاں عورت محض ایک جنس تھی۔ جس کے کوئی حقوق کوئی پہچان نہیں تھی۔ انہیں حضور(ص) کا حوصلہ بڑھانے ان کی ہمت بندھانے کی ذمہ داری نہ سونپی جاتی۔عورت اگر کمزور تخلیق ہوتی تو اسے ماں بننے کی ذمہ داری پروردگار کبھی نہ تفویض کرتا۔ اس پر مرد کے سکون کی ذمہ داری نہیں ڈالتا۔اگر عورت بےبس ہوتی تو خدا تعالی حضرت عیسی (ع) کی پیدائش کے معجزے کے لئے حضرت مریم(ع) کو نہ چنتا۔۔
تو بات یہ ہے کہ حقوق کے نعروں کے نام پر عورت کو اس کے کمزور ہونے کااحساس دلانا بند کیا جانا چاہئیے۔ اس کے ساتھ کتنے ظلم ہوتے ہیں بجائے اس بات کو ہائی لائٹ کرنے کے، اس بات کی ذمہ داری لینی چاہئیے اور باتوں سے نہیں اپنے عمل سے عورت کے حقوق اور اس کے مرتبے کا خیال کریں۔عورت کی تعظیم اس کے مقام، اس کے حوصلے، اس کی ذمہ داریوں کا احساس کیا جائے اور اس میں عملاً حصہ ڈالا جائے۔
اس سے ہمدردی کے بجائے اس کی تعظیم اور اس سے محبت کی جائے۔”عورت پیر کی جوتی ہے۔”والی سوچ کی جگہ کچھ اچھی سوچ لائیے جس کا اظہار کرتے ہوئے آپ بھی قابل احترم لگیں۔
اگر معاشرے کو متوازن,مستحکم اور پرسکون بنانا ہے تو اس کے دونوں ذمہ داروں کو یکساں مقام،احترام اور اہمیت دینی ہوگی جہاں صرف مرد عالی مقام نہیں اس کے پہلو سے تخلیق ہونے والی عورت کو بھی وہی مقام حاصل ہوگا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn