13 رجب، سنہ 30 عام الفیل خانہ کعبہ میں امام علیؑ کی ولادت ہوئی اور 21 رمضان سنہ 40 ہجری مسجد کوفہ میں حیدر کرار شہید ہوئے۔ ولادت سے شہادت تک کا یہ سفر بے مثل ہے۔خدا کے گھر سے خدا کے گھر تک کا یہ سفر جہاں شجاعت اور بہادری کی اعلیٰ مثال ہے وہیں مصائب و الم کی لازوال داستان بھی ہے۔ امام علیؑ کی شان کو سمجھنے کے لیے رسولؐ کی حیات طیبہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہجرت مدینہ کے وقت تمام تر امانتیں امام علیؑ کے حوالے کیں اور پندرہ دن تک مقام قبا پر امام علیؑ کا انتظار کیا۔ مہاجرین اور انصار کو جب ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو علیؑ کو اپنا بھائی بنایا۔ ہر جنگ میں علیؑ رسول پاکﷺ کے ساتھ رہے اور حضورﷺ کے دفاع کے ساتھ ساتھ بے شمار دشمن اسلام کو واصل جہنم کیا۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچا۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقررہ راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا۔ اتنے میں جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول خداؐ کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علیؑ کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔ غدیر خم کے مقام پہ نبی پاک ﷺنے سب کو اکھٹا کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا "حمد و ثنا صرف اللہ کے لئے ہے۔ اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنے نفس کی شرانگیزیوں اور اپنے کردار کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے بہت جلد اس کے پاس سے بلایا آئے گا اور میں اس کے بلاوے پر لبیک کہوں گا۔ میں تم سے پہلے حوض کوثر کے کنارے حاضر ہوں گا اور تم اسی حوض کے کنارے میرے پاس لائے جاؤگے، پس دیکھو کہ میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو۔ ثقل اکبر کتاب اللہ ہے ۔۔۔ اور میری عترت، ثقل اصغر ہے۔۔۔”۔
اس کے بعد رسول خداؐ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا یہاں تک کہ سب نے آپؑ کو رسول اللہ ؐ کے پہلو میں دیکھ لیا اور اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: "اے لوگو! کیا میں تمہاری نسبت تم پر مقدم نہیں ہوں؟”، لوگوں نے جواب دیا: "کیوں نہیں اے رسول خداؐ”؛ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: "خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مومنین کا ولی ہوں، پس جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں”۔ رسول خداؐ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: "اے اللہ! تو اس شخص کو دوست رکھ اور اس کی سرپستی فرما جو علی ؑ کو دوست رکھتا ہے اور اسے اپنا مولا اور سرپرست مانتا ہے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علیؑ کا دشمن ہے۔ اس کی مدد اور نصرت فرما جو علیؑ کی مدد اور نصرت کرتا ہے اس شخص کو اپنی حالت پر چھوڑ دے جو علیؑ کو تنہا چھوڑتا ہے”۔ بعد از اں لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: ” حاضرین اس پیغام کو غائبین تک پہنچا دیں”۔
ابھی اجتماع منتشر نہیں ہوا تھا کہ جبرائیلؑ دوبارہ نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے رسول خداؐ پر آیت اکمال نازل کردی؛ جس میں ارشاد ہوا: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ” اے علی، کوئی بھی آپ سے محبت نہیں کرتا سوا ئے مومن کے اور کوئی بھی آپ سے دشمنی نہیں کرتا سوا منافق کے”۔ (أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، ج2، ص648) رسول پاکﷺ کی رحلت کے بعد امام علیؑ بہت تنہا ہو گئے۔ وہ علیؑ جسے رسولﷺ نے غدیر خم پہ ہاتھ بلند کر کے اپنا وصی کہا تھا بعد رسولﷺ اب اُس علیؑ کو سلام تو دور کوئی سلام کا جواب تک نہ دیتا تھا۔ رسول پاک کی رحلت کے چند دنوں بعد حیدر کرارؑ نے اپنی دوست، غم خوار شریک حیات بی بی فاطمہ زہراؑ کی شہادت کا صدمہ بھی برداشت کیا جو کہ انتہائی دلخراش تھا۔
ان تمام مصائب و الم کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان رسول پاکﷺ کی جانشینی پہ تنازع نے امامؑ کو بے حد پریشان رکھا۔ یہ وقت بھی امام علی نے انتہائی صبر سے گزارا۔ جنگ جمل، جنگ صفین اور پھر جنگ نہروان کے بعد علیؑ اور اولاد علیؑ کے مصائب اور تنہائی میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔ حیدر کرارؑ کی شجاعت لاجواب تھی تو سادگی باکمال ایسی صبر و قناعت کی مثال نہیں ملتی۔ نہج البلاغہ میں امامؑ اپنے ایک خطبے میں فرماتے ہیں ،” جان لو کہ ہر پیرو کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کی دانش کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے،دیکھ لو کہ تمہارے امام نے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں صرف دو روٹیوں پر قناعت کرلی ہے اور بلا شک یہ سب تمہارے بس کی بات نہیں ہے، بس تم اتنا کرو کہ پرہیزگاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ ” (نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 45)
ابن ملجم ملعون جنگ نہروان میں علیؑ کی فوج کے ہاتھوں خارجیوں کے سربراہ کے قتل کا بدلا لینے آیا تھا۔ اُنیس رمضان وقت فجر نماز کی امامت کے لیے امام علیؑ مسجد کوفہ میں داخل ہوئے تو ابن ملجم سو رہا تھا امام علیؑ اسے جگا کر بولےکہ جس مقصد سے آیا ہے اسے پورا کر۔ نماز کی امامت کے دوران جب علیؑ حالت سجدہ میں تھے تو ابن ملجم نے زہر آلود تلوار کے وار سے امامؑ کا سر پہ ضرب لگائی۔ سرمبارک پر ضربت لگتے ہوئے مولا نے آواز دی (فزت و رب الکعبہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا)-ولادت کا سفر خدا کے گھر سے شروع ہو کر خدا کے گھر ختم ہوا اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو گی۔ حیدر کرارؑ کی کعبہ میں ولادت نے ثابت کیا کہ علیؑ وجہ اللہ، علیؑ لسان اللہ، علیؑ اسد اللہ، علی ید اللہ ہے، علیؑ کے سجدوں نے واضح کیا کہ علیؑ عبد ہے معبود نہیں۔
شہادت کے بعد امام علیؑ کی تدفین بھی خاموشی سے کی گئی اور اصلی قبر کو پوشیدہ رکھا گیا تا کہ دشمن اپنے بغض اور حسد کی وجہ سے جنازے کو پامال نہ کرے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کی دشمنی کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ ان کی زندگی کے بعد حکومت جگر خور کے بیٹے اور بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور بنو امیہ کے لوگ اپنے دلوں میں بھڑکتی ہوئی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حضرت علی علیہ السلام کی میت کو قبر سے نکال کر لاشے کی بے حرمتی کریں گے لہذا حضرت علی علیہ السلام نے بنو امیہ، اس کے اعوان و انصار، خوارج اور ان کے ہم مثل لوگوں کے شر سے بچنے کے لیے اپنی قبر کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا- (کتاب فرحۃ الغری ص25) حجاج بن یوسف جب بنو امیہ کی طرف سے گورنر بنا تو اس نے حضرت علی علیہ السلام کے لاشہ کی بے حرمتی کرنے کے لیے کوفہ، نجف اور اس کے گردو نواح میں موجود تین ہزار قبروں کو کھدوایا لیکن اسے حضرت علی علیہ السلام کی میت نہ ملی۔ (کتاب منتخب التواریخ) امام علی کے مصائب و شہادت ابتدا تھے جبکہ واقعہ کربلا مصائب و مظالم کی انتہا ہے۔ میر انیس کے امام علیؑ کی شہادت کے حوالے سے مرثیے کے چند اشعار
اک شور ہے ماتم کا بپا گھر میں علیؑ کے
بیٹے لیے جاتے ہیں جنازہ کو علیؑ کے
خاموش انیس اب کےنہیں طاقت گفتار
سینہ میں تپاں صورت بسمل ہے دل زار
خالق سے دعا مانگ کہ یا ایزد غفار
آباد رہیں خلق میں حیدر کے عزادار
کیا روتے ہیں ماتم میں امام ازلی کے
حقا کہ یہ سب عاشق صادق ہیں علیؑ کے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn