اعلان سے ہرگز پریشان نہ ہوں۔ یا پھر شاید ہمیں پریشانی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہونا چاہیے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی کا جنازہ دیکھ کر افسوس کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اعلانِ جنازہ کسی شخصیت کا نہیں بلکہ یہ اخلاقیات کے جنازے کا اعلان ہے جو آج کل پاکستان میں گلی محلوں میں اُٹھایا جا رہا ہے۔ بغیر کسی شرم کے ، بغیر کسی حیاء کے راہنمائے وطن اس جنازے کو کندھا بھی دے رہے ہیں۔ آخر کیوں نہ کندھا دیں اخلاقیات کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
پاکستانی راہنماؤں، نہیں پاکستانی سیاستدانوں یا پھر۔۔۔ جو بھی آپ کا من کرے پکار لیں۔ کیوں کہ میں خود الجھن کا شکار ہو گیا ہوں کہ ایسے لوگوں کو کیا کہہ کر پکاروں جو زُبان تک کا مناسب استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ حواس باختہ اقتداریے؟ یہ شاید مناسب لفظ ہو گا؟ پاکستان میں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ اقتدار کو دوام دینے کے لیے اخلاق کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اور جواقتدار سے باہر ہیں وہ اقتدار کا ہما اپنے سر پہ بٹھانے کے لیے اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرنے پہ تیار نظر آتے ہیں۔ وسائل کے اعتبار سے امیر اور انتظامی امور کے حوالے سے غریب بلوچستان میں کبھی رہیسانی صاحب "ڈگری ڈگری ہوتی ہے” کہتے تھے تو شور مچ جاتا تھا۔ آج اِسی صوبے کے وزیر اعلیٰ ببانگِ دہل بیان داغتے ہیں کہ ” کتے بھونکتے رہتے ہیں قافلے گزر جاتے ہیں” تو کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔ آدمی کی جگہ انہوں نے قافلہ استعمال کیا کہ مبادا وزیر اعظم اکیلے ہی نہ گزر جائیں۔
خان صاحب ملکی سیاست میں عجب غضب کی تبدیلی لائے ہیں۔ وہ جلسوں میں ایسے ایسے لفظ استعمال کر جاتے ہیں کہ ان کے سامعین بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب کو چوہا کہتے ہوئے فرمایا وہ چوں چوں کرتے ہیں اخلاقی پستی میں انہیں شاید یاد نہیں رہا کہ چوں چوں تو چوزے کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے بنوں میں خطاب کے دوران جب "منہ اور مسور کی دال” اور ” گیدڑ بھبکیاں” کے محاوروں کا بے تکا استعمال کیا تو وہ وزیر اعظم سے زیادہ کسی یونین کونسل کے کونسلر محسوس ہوئے۔ بنوں میں ان بے محل محاوروں کا حق مولانا صاحب نے خوب ادا کیا کہ ” چوہوں سے ڈرنے والے پنجاب کے شیروں سے مقابلہ کرتے ہیں” مولانا صاحب بنوں گفٹ کا شکر یہ ادا کرنے میں زیادہ ہی آگے نکل آئے۔ یاد رہے آپ منتخب خیبر پختونخواہ سے ہوئے ہیں پنجاب سے نہیں۔ اپنے طلال کا جلا ل ملاحظہ فرمائیں ، کہتے ہیں کہ ” بلورانی کب سے بلو عمرانی ہو گئی” الاماں یہ بھی بھول گئے یہ ساتھ مریم اورنگزیب نام کی ایک خاتون بھی کھڑی ہیں۔ لیکن وہ بھولے نہیں تھے کیوں کہ یہ خاتون بھی تو سیاستدان ہی ہیں جو ایک پروگرام میں فرماتی ہیں کہ ” جہانگیر ترین و علیم خان کو اے ٹی ایم کہہ دیا تو کیا برا کیا”۔
اپنے چھوٹے میاں کی راجدھانی کے ترجمان تو حد سے ہی گزر گئے ۔ فرماتے ہیں” عمران خان رائے ونڈ آئے تو ٹانگیں توڑ دوں گا” کوئی پوچھے حضور آپ ترجمان ہیں یا "ڈانگ مار” جو ٹانگیں توڑ دیں گے؟ اور اگر جوابی وار پڑ گیا اور آپ کی ٹانگ پہ خراش بھی آ گئی تو یقیناًیہ جمہوریت پہ حملہ تصور ہو گا۔ اپنے زرداری صاحب تو عقل کے کائیاں آدمی نکلے بے تکا بولے اور بے وطن ہوگئے کیوں کہ زیادہ ہی بول گئے ۔ آکسفورڈ لہجے میں سندھ کی حکمران جماعت کے بابو صاب تو آدھی اردو آدھی انگلش میں پنجاب کی طرف انگلی کر کے ایسے غراتے ہیں کہ ” دامنِ اخلاقیات” خود کہتا پھرتا ہے بھیا میں تار تار ہی بھلا۔
ایک عام آدمی گالم گلوچ تو دور غصے سے بھی بول لے اور کوئی صاحب بہادر سن لے تو ہتک عزت کا دعویٰ تو کہیں گیا ہی نہیں۔ کوئی کسی کام چور کو تو چار صلواتیں سنا دے تو میڈیا کی زینت بن کے انسانی حقوق کی تنظیموں تک معاملات جا پہنچتے ہیں۔ وزیر مشیر دلاسے دینے پہنچتے ہیں کہ اخلاق سے عاری اس حرکت کا ازالہ کیا جائے گا۔ ہم میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ دلائل سے مقابلے کے بجائے اخلاقی پستی ہی کیوں ہمارے راہنماؤں کا ہتھیار بن چکا ہے۔ عام آدمی کہے تو جرم ، آپ کہیں تو یہ انتخابی کمپین، یہ تضاد کیوں؟
یہ”زُبانِ اہلِ زمیں”ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے اس ایڈریس پر مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
facebook.com/kazmicolumnist
شاہد عباس کاظمی نوجوان کالم نگار ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر کالم لکھتے ہیں۔ 100 لفظی کہانیاں بھی ان کی پہچان ہیں۔ ان سے فیس بک اور ٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn