Qalamkar Website Header Image

آزادیٔ اظہار اور ہم

Mairaj Hamid
کسی بھی زمانے میں انسان کے بنیادی حق ٗ آزادی اظہار کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی وقتی مصیبت کی بناء پر اُس کو خاموش بھی کرایا جائے تو یہ کوئی اور مناسب موقع تلاش کرکے اپنی رائے اور سوچ کو آزادی کے ساتھ پیش کرے گا۔ لیکن سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ جن کو یہ آزادی میسر ہے اور وہ اس نعمت کو اپنے ہم وطنوں اور ہم عصروں کی فلاح اور آگہی کے لیے بروئے کارنہ لائے تو میرے خیال میں یہ کفرانِ نعمت کے زمرے میں آئے گا۔ اس آزادی کی قدر وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں جو کئی دہائیوں تک آمرانہ طرزِ حکومتوں کی بناء پر بنیادی حقوق سے محروم رہے۔ آزادی بلاشبہ ایک عظیم نعمت ہے لیکن آزادیٔ اظہار کا حق ملنا اس سے بھی عظیم تر ہے۔
دل و جان سے عزیز، پاکستان میں ہر قلم کار اور ادیب کو ہر قسم کی آزادی کی نعمت میسر ہے اگر نہیں ہے تو صرف اِس نعمت کے صحیح استعمال کی کمی ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں لکھنا تو آتا ہے پر صحیح سمت میں لکھنا اور لکھنے سے پہلے یہ بات بھول جانا کہ ہم پاکستان کے شہری ہیں اور شہری ہونے کے ناطے ہمارے اوپر کچھ فرائض بھی آ جاتے ہیں جن کو پورا کرنا کم از کم ہمارا اخلاقی اور ملّی فریضہ ہے۔ پاکستان نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو آج سے ستّر سال قبل ہمارے آباؤ اجداد کو مہیا نہیں تھا۔ آج ہم جس طرح کھل کے قلم اٹھانے کے قابل ٹھہرے ہیں اور جو ذہن میں آیا زیرِقلم لا کر آرزؤوں کو پورا کرتے ہیں۔ یہ صرف اس ملک کے وجود کی وجہ سے ہے جس کو ہم غیروں کی طرح کَوسنا شروع کر دیتے ہیں اور لعن طعن بھیجنے سے گریز نہیں کرتے۔
عصرِ حاضر کے لکھاریوں کو پتہ نہیں کس نے سکھایا ہے کہ پاکستان کے چپے چپے سے صرف اور صرف خال خال نظر آنے والی خامیاں اُٹھا کر ہی زیر قلم لایا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی خامیوں کو اجاگر کرکے دنیا کے سامنے اس خامی کو پورے معاشرے کا تماشا بنا کر ہی ملک و قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔
بصد احترام، کوئی بھی معاشرہ خامیوں سے خالی نہیں ہو سکتا۔ مگر اس معاشرے کی خوبیوں کی وجہ سے یہ خامیاں پس پردہ رہ کر اس کی تصحیح کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور میری رائے میں یہ ادیبوں کے فرائض میں شامل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حلقے میں رہ کر ان کوتاہیوں کا تماشا بنائے بغیر حل تلاش کریں۔
کچھ ساتھیوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور تمدن پر شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ مغربی معاشرے کی طرح بقول اُن کے ماڈرن نہیں ہے۔ یہاں پر بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ عورتوں کو گھروں میں محبوس رکھا گیا ہے، بچوں کے لیے یہ وطن انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ اپنی تہذیب کی بنیادوں کو سوالیہ نشان بنایا جا رہا ہے۔ گویا پاکستان میں امریکی تاریخ کی سترہویں صدی کی طرح ہر طرف انسان سے جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہو۔ یا پھر انقلابِ فرانس سے پہلے کے حالات اب دنیا میں صرف پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔
حق تو یہ ہے کہ اگر مجھے اس قدر آزادی مل رہی ہے تو میں ان سب چیزوں کی بنیاد پر اپنے ملک کے خلاف ایک کیس تیار کرنے کے بجائے اس وطن کی خاک کا وہ قرض بھی اُتار دوں جس کا میں موت کے بعد بھی مقروض رہوں گا۔ اگر دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے وطن کا موازنہ کیا جائے تو یہاں پر کسی مذہب کے لیے نفرت اس درجہ تک موجود نہیں جتنی پڑوس میں پائی جاتی ہے۔ اقلیتیں ہماری طرح پاکستان کی شہری ہیں اور ان کی نمائندگی پارلیمنٹ سے لے کر قومی پرچم میں سفید رنگ کی شکل میں بھی موجود ہے۔ عورت یہاں پر اُس مقدس مقام پہ موجود ہے جس سے ساری دنیا رشک کھا کر اُن کو اس مقدس رشتوں سے چھڑا کر مادہ پرستی کے جال میں پھنسانا چاہتی ہے۔ پھول جیسے بچے صرف پاکستان میں ہی اپنے بچپن کے کھیل اور تماشے، اپنے اہل و عیال کے زیر اثر اور پیار بھری نظروں سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ اِکّا دُکّا واقعات کو بنیاد بنا کر ہمارے کچھ دوست خواہ مخواہ اپنی عزت کا اپنے ہاتھوں سے تماشا بنانا چاہ رہے ہیں۔
آزادیٔ اظہار ہمارا بنیادی حق ہے پر اس حق کو ملک و قوم کی فلاح و بہبود، خوش حالی و ہریالی اور عزت و ناموس کے لیے بنیادی اخلاقی معیار کے عین مطابق زیرِ قلم لانا ہمارا قومی فریضہ بھی ہے۔ کیونکہ حق اور فرض ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ لہٰذا مادرِ وطن کو دنیا میں تماشا بنانے سے بچانا اور اس کے لیے وکیل بن کر کیس لڑنا ہر اہل قلم اور صاحب الرّائے کا فرض بنتا ہے۔ جو ہم سب نے پورا کرنا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس