کسی معاشرے کے رواج اور روایات اس کی اجتماعی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں.یہی روایات معاشرے کے افراد کو جانچنے اور پرکھنے کے معیار كا تعین کرتی ہیں.ترقی یافته اور مہذب معاشروں میں عزت اور اعلی مقام کا پیمانه سوچ اور کام کرنے کی صلاحیت اور مہارت ہوتی ہے .لیکن پسمانده اور ماضی کے حسین خوابوں میں کھوۓ مشرقی معاشرے کے افراد کسی بھی شخص کے احترام اور معیار کا ترازو خاندانی پس منظر , ذات , علاقه اور ماضی ہے.یہاں شعوری یا لاشعوری طور پر انسان کو اس کے خاندانی. علاقائی اور ذاتی زندگی کے پس منظر میں مخصوص فریم میں رکھ کے دیکھا جاتا ہے ..
ہم لوگ انسانوں کو ان کے کردار ,رویے ,کام ,سوچ اور قابلیت کے لحاظ سے احترام کے مرتبے په فائز نہیں کرتے بلکه اس کے خاندان ,ذات ,علاقے اور معاشی مرتبے کو دیکھتے ہوۓ اس کے معزز یا ‘کمی’ہونے کا فیصله کرتے ہیں. یہی وجه ہے که کوئی شخص کتناہی لائق ,قابل اور اعلی اعزازات کا مالک کیوں نه ہو ہم اس کی انتہائ ذاتی نوعیت کی معلومات حاصل کرنے کی جستجو اور ٹوه میں ہوتے ہیں اور اس کے علم و ہنر کو ایک ترازو اور اس کی ذاتیات کو دوسرے ترازو میں رکھ کر ذاتیات کے پلڑے په نظر رکھتے ہوۓ ہی اس کی سماجی حثیت . معزز اور عزت دار ہونے یا نه ہونے کا فیصله کرتے ہیں .
اب اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے وه شخص جو معاشرے کے بناۓ گئے اس ‘فریم’سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے اپنا نام اور پہچان اپنے علم و ہنر اور اپنی نئ اور منفرد سوچ سے بنانا چاہتا ہے . اسے نه صرف شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکه اعزازی طور پر "باغی” اور "خود سر "کا خطاب بھی دیا جاتا ہے . مثال کے طور پر کسی روایت پسند خاندان میں پیدا ہونے والا شخص اگر کسی روایت کے غلط ثابت ہونے پر اس کی مخالفت کرے اور اس سے ہٹ کر جینا چاہے تو خاندانی سماجی اداره اس شخص سے معاشی اور معاشرتی مقطعه کر کے اسے ایسا کرنے سے باز رہنے کی تنبه کرتا ہے.اگر پھر بھی وه اس سے منع نه ہونے پاۓ تو اس سے ہر تعلق اور ناطه مستقل طور په ختم کر دیا جاتا ہے خواه اسی خاندان کے کچھ افراداسی روایت کے خاموش مخالفین هی کیوں نه ہوں اسے غلط سمجھتے ہوۓ دلی طور په اس کو ختم کرنے کے حامی ہی کیوں نه ہوں.اپنے سماجی طور په قائم ہوۓ صدیوں پرانے نام نہاد خاندانی وقار اور جھوٹی انا کے بت کو قائم رکھنے کے لیے خاموش رہتے ہیں .اس کی وجه سماج کی طرف سے نادیده لیکن شدید دباؤ ہے جس کے پیش نظر وه اپنی نام نہاد روایات کےپاس دار بنے رہتے ہیں کیوں که وه سماج سے ٹکر لینے کی اخلاقی جرات نہیں کر پاتے.
اس طرح غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے والے کی کاوشیں کتنی ہی مثبت اور سماجی طور په مفید کیوں نه ہوں .ان کو سراہے اور قابل عمل سمجھے جانے کے لیے ایک عمر درکار ہوتی ہے.
یه عامیانه سوچ کسی فرد کے آگے بڑھنے نئ اور منفرد سوچ کو پیش کرنے کے عمل میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے.
یه بات بھی اپنی جگه درست ہے که اجتماعی سوچ اور رویوں کو بدلنے کے لیے ایک طویل عرصه اور محرکات درکار ہوتے ہیں لیکن انفرادی سطح په اس کوشش کا اہتمام ضرور کیا جا سکتا ہے که انسان کو اس کی انفرادی اور سچی سوچ سے پرکھا جا سکے.اسی سوچ کے ذریعے یه ممکن ہے که ماضی کے سہانے خواب سے ہو کے آگے بڑھا جاۓ اور نیا زمانه پیدا کیا جا سکے .تاکه سچی منفرد اور نئ سوچ پروان چڑھے اور معاشره اختلاف راۓ کا احترام کرنا سیکھے . واقعات اور معاملات کو ناقدانه انداز سے دیکھے اور عقلی دلیل سے ان میں باہم ربط پیدا کرے.اس طرح مثبت انداز میں آگے بڑھے .جو یقینآ وقت کی نہیں بلکه بنیادی انسانی ضرورت ہے .
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn