بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی خصوصی مشن پر واشنگٹن پہنچے اور انھوں نے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
مضبوط بھارت امریکی مفاد میں ہے۔ دونوں فطری دفاعی اتحادی ہیں۔ بحر ہند میں ہماری سرگرمیوں کا فائدہ امریکا کو ہو گا۔۔۔ امریکا اور بھارت کی مضبوط شراکت داری سے ایشیا، افریقا اور بحر ہند میں امن و خوشحالی آ سکتی ہے۔ دونوں ممالک میں فوجی تعاون بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
* دونوں مالک کے تعاون سے سمندروں میں سکیورٹی، تجارت اور آزادانہ نقل و حمل کو بھی یقینی بنایا جا سکتاہے۔
* دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر سطح پر لڑنی اہیے صرف روایتی فوجی طریقہ کار، انٹیلی جینس یا سفارتکاری کے ذریعے اس جنگ کو نہیں جیتا جا سکتا۔ اس جنگ کا مقابلہ کرنے میں دونوں ممالک کے فوجیوں اور شہریوں کا نقصان ہوا ہے۔
*افغانستان اور جنوبی ایشیا کو دہشت گردی سے سب سے بڑا خطرہ ہے، دہشت گدوں کو نوازنے کے بجائے ان کا احتساب دہشت گردی کے خاتمہ کی جانب پہلا قدم ہے۔ امریکا بھارت کے ہمسایہ ممالک (چین اور پاکستان) کی طرف سے دہشت گردوں کو ملنے والی سپورٹ کو ختم کرے۔
* امریکا اور بھارت کو باہم قریبی تعاون سے کسی بھی ملک کو تنہا کر دینا چاہیے جو دہشت گردی کی آماجگاہ ہیں ان کی حمایت یا معاونت کرتا ہو۔
بھارتی وزیراعظم نے امریکیوں کو یہ احساس بھی دلایا کہ۔۔۔ 30 لاکھ بھارتی نژاد امریکی باشندے بھارت کا فخر اور امریکا کی طاقت ہیں۔۔۔ اس احساس کی نشاندہی عین اس موقع پر تھی جب تین ماہ بعد امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اس میں ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست کا خطرہ ہے روایت کے مطابق ڈیمو کریٹک اپنا عرصہ اقتدار دو بار پورا کر چکے ہیں پھر بھی مودی نے بھارتیوں کو ڈیموکریٹک کے لیے حمایت کا عندیہ دیا۔
ڈیموکریٹک کے بارے تاثر ہے کہ وہ شروع سے ہی بھارت کے حمایتی رہے ہیں جب کہ ری پبلکن علاقے میں توازن کو اہم سمجھتے اور اس تناظر میں وہ اپنا وزن پاکستان کے حق میں ڈالتے ہیں یہ تاثربھارتی وزیراعظم کے خطاب کے دوران بھی سامنے آیا جب ڈیموکریٹک تو تالیاں بجاتے رہے لیکن ری پبلکن خاموشی سے نظارہ کرتے رہے۔۔۔ لیکن یہ تو محض خود فریبی ہے امریکی صرف مفادات کے تابع ہوتے ہیں پارٹی اور نظریہ کوئی اہمیت نہیں رہتا۔ یہ ہم جیسے خوش فہم ہوتے ہیں جو ایک کے بجاے دوسرے سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں لیکن جب دوسرا اس سے بھی بڑا موقع پرست بن کر سامنے آتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جس کا اظہار ہمارے مشیر خارجہ نے امریکی وفد کی آمد سے ایک دن پہلے اپنی خصوصی پریس کانفرنس میں کیا تھا۔۔۔ بہرحال
بھارت کے وزیراعظم کی اس تقریر سے یہ تاثر بھی نمایاں ہوا اور انھوں نے امریکیوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ پاکستان اور چین مل کر خطے کے چودھری بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بھارت ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے مراکز میں جہاں سے دہشت گردی کی پرورش ہو رہی ہے۔۔۔ چنانچہ جب دونوں ملکوں کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تو اس میں ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق دونوں راہنماؤں نے مشترکہ طور پر اپنے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ان کے حامی انفراسٹرکچر کو ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ ترجمان نے دونوں ملکوں کی طرف سے داعش، القاعدہ اور لشکر طیبہ کے خلاف تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تو محض ایک ترجیح اور اس کا مقصد تھا۔ اصل اہداف تو کچھ اور تھے اور ہیں جن کے واضح اشارے مذکورہ تقریر میں موجود ہیں۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ۔۔۔ ڈیموکریٹک جلدی میں ہیں وہ انتخابات سے پہلے بھارت کے ساتھ مستقبل کی علاقائی دفاعی سیاسی اور اقتصادی تقسیم کے معاہدے کرنا چاہتے ہیں اور خود بھارت بھی ان کو علاقائی عملی سیاست کا حصہ بنا کر دیرینہ خوابوں کی تعبیروں کے راستے پر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ جو بظاہر ردعمل یا پھر نئے علاقائی اشتراک عمل (روس چین اور پاکستان) کے خلاف واضح اتحاد کی طرف پیشرفت ہے۔ اس نے علاقائی سطح پر جس محاذ آرائی کو جنم دیا ہے یا پھر ایک نئی خاموش جنگ کی ابتدا کر دی ہے وہ مستقبل میں علانیہ ہتھیاروں کی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اور اس کا مرکز بحر ہند اور خلیج فارس کے سمندر اور ان کے قریبی ساحل بھی ہو سکتے ہیں جہاں بالادستی کے تسلسل اور جنگی جنون کی خواہش انتہا کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ایک ا ور تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکی پالیسی سازوں اور افغان انتظامیہ کی طرف سے کئی مہینوں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے مطالبے بھی ہو رہے تھے جس پر امریکی صدر اوباما نے طالبان کا مقابلہ کرنے اور افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے افغانستان میں موجود امریکی فورسز کے اختیارات میں اضافے کے منصوبہ کا اعلان کر دیا جس کے تحت امریکی فورسز ضرورت پڑنے پر طالبان پر فضائی حملے کر سکیں گی۔۔۔ گویا اب ڈرون حملوں کے ساتھ ہوائی جہازوں کا بھی بے دریغ استعمال ہو گا۔ مگر یہ سوال ضرور غور طلب ہے کہ یہ حملے افغانستان کی حدود کے اندر ہوں گے یا پھر ان کے مبینہ ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔
ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔ دیکھیے اس سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں موجود بغاوت یا تحریک آزادی کی پشت پناہی کو ’دہشت گردی‘ قرار دے کر ڈرون مداخلت کب کرتا ہے۔ جو بظاہر آسان نہیں چنانچہ اگر یہ ناممکن ہوا تو وہ اسے بین الاقوامی پراپیگنڈا کا حصہ ضرور بنا سکتا ہے اس کے لیے یہ خوش آئند ہے کہ امریکا نے لشکر طیبہ کو بھی داعش اور القاعدہ کے ساتھ دہشت گرد تنظیموں میں شامل کر رکھا ہے اور ممبئی اور پٹھان کوٹ کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی حمایت کی ہے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا دورۂ امریکا مقاصد کی تکمیل کی آخری صورت تھی جس میں اولین ترجیح بھارت کو این ایس جی گروپ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لیے امریکا اور دیگر اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنا تھا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس پس منظر میں بہت سے ممالک سے رابطے بھی کیے اور انھیں بھارت کی حمایت کرنے کو کہا۔ گروپ کا اجلاس 10 جون کو ہونے والا تھا۔
یا درہے کہ۔۔۔ این ایس جی گروپ میں 48 ممالک شامل ہیں جنھیں جوہری مواد کی قانونی خرید و فروخت کی اجازت ہے یہ گروپ 1979 میں قائم ہوا تھا جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ لیکن دلچسپ حقیقت ہے کہ بھارت نے ابھی تک ایٹمی عدم پھیلاو کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے۔ اور امریکی حمایت کی یقین دہانی کے باعث اجلاس سے ایک ماہ پہلے 12 مئی کو ممبرشپ کی درخواست دی اور اس پر لابنگ بھی شروع کر دی یاد رہے کہ پاکستان کی امریکا میں سابق سفیر شیری رحمن کے بقول بھارت نے لابنگ کے لیے امریکا میں چار گروپ ہائر کر رکھے ہیں پاکستان کے لیے صرف ایک گروپ ہے وہ بھی متاثر کن کردار ادا نہیں کر رہا۔ بہرحال بھارت نے این ایس جی کی رکنیت کے لیے 12 مئی کو درخواست دی تو پاکستان کی طرف سے 21 کو ایسی ہی خواہش کا اظہار کر دیا گیا اور کوششیں آغاز ہوئیں اس تناظر میں صرف چین کی طرف سے پاکستان کے حق میں واضح مؤقف سامنے آیا۔
عالمی میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہو ئیں تھیں کہ اگر پاکستان کو اس گروپ کی رکنیت نہ ملی تو چین بھارت کو بھی اس گروپ کا ممبر نہیں بننے دے گا۔ اور بھارتی تجویز اور اس کی قرارداد کو ویٹو کر دے گا، کیوں کہ چین کا واضح مؤقف تھا کہ بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ گروپ میں شامل کیا جائے چنانچہ یہ امکان بھی تھا کہ یا تو دونوں ممالک کو رکنیت ملے گی یا پھر کسی کو بھی نہیں ملے گی۔
دوسری طرف یہ پہلا موقع تھا جب روس کی طرف سے بھی پاکستان کی حمایت کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے واضح کیا گیا کہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا ممبر بنانے کے لیے 48 رکن ممالک میں سو فی صد اتفاق ضروری ہے۔ بھارت کو رکنیت کے لیے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ گروپ کے قواعد اور معاہدے سے ہٹ کر کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ بھارت یا کسی ایک ملک کی خواہش پر این ایس جی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ چین کے اس موقف کا ہی نتیجہ تھا کہ 10جون کو ہونے والے اجلاس میں درخواستوں پر غور تو ہوا لیکن ان پر فیصلہ 23/24 جون کو ہونے والے اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا جسے فوری طور پر پاکستان کی خواہش کا احترام اور فتح بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن کب تک؟ کیوں کہ عالمی سیاسی کردار میں اجتماعی قومی کردار بھی اہم اور بنیادی تصور کیا جاتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn