ہائے ہائے ذرا اس جملے کا لطف تو لیجیے. اف کس خوبی سے جوانی کے شعلہ جوالا کو ایک فقرے میں سمولیا. جوانی وہ موسم جس میں مسکراہٹ کسی خارجی سبب کا محتاج نہیں ہوا کرتی. جس میں درد بھی اندرون سے اٹھ کر کیف و سرور کا ہالہ بناتا ہے. اپنا ایک شعر یاد آتا ہے.
وہ ایک کیف تھا شاید گئی جوانی کا
کہ رنگ سرخ نظر آرہا تھا پانی کا.
یوسفی صاحب فرماتے ہیں جوانی میں زیبرا بھی ملٹی کلرڈ دکھائی دیتا ہے. زمانے میں پسند ناپسند اور ترجیحات اور معیارات بدلتے رہتے ہیں لیکن دو چیزوں سے حیات کا عطر کشید کرنے پر خوئے بشر کا اجماع رہا ہے.
شراب اور عورت.
تمام سامی مذاہب نے مستی کے ان دو منابع پر مناسب حد تک پابندیاں عائد کرکے انسانیت اور بہیمیت میں حد فاصل رکھنے کا مناسب انتظام کیا ہے.
لیکن خوئے طلب رکھنے والوں کے لیے جوئے آب مہیا ہوہی جاتی ہے.
پس عورت کا تو معاملہ یہ رہا کہ شاید ہی اولین سنین شباب کے دو چار سال کے سوا کبھی تشنگی دامن گیر رہی ہو. ہم سہر چشم ہوتے ہوئے بھی پیاس ہونٹوں پر سجائے پھرتے کہ خداوندانِ جمال کی نظرِ عنایت اس بہروپ کے بنا حاصل نہیں کی جاسکتی.
یہی بہروپ تھا جو ہم سجائے تھے. جب ایک پری وش رات کی خلوت میں برقی رابطہ استوار کربیٹھی. وہ اپنی عنایات ہم پر کرنا چاہتی تھی. یہ دیکھتے ہوئے ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا. ابھی کل بائیس مئی کو ہماری سالگرہ ہے. ہم نے ان سے سالگرہ کا تحفہ طلب کیا کہ ہم ایسے تشنہ لبوں کیلئے حسن کے گلے لگنے سے بڑھ کر تحفہ کوئی نہیں ہوسکتا.
وہ عیار تھی وہ ٹال گئی..
دیکھئے کب ہماری خواہش حقیقت میں ڈھل کر ماضی کا ایک گزر چکا لمحہ بنتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn