پچھلے کچھ مہینوں سے اسے سکول کے ساتھ ساتھ ایک دوسری سائیٹ پر بھی جانا پڑرہا تھا جو کہ اس کی رہائش سے بھی بہت دور تھی اوپر سے گھر والوں کا شادی کیلئے بڑھتا ہوا دباؤ۔ لاپرواہی کے طعنے سن سن کے وہ بری طرح کھپ چکی تھی۔ ان دنوں چڑاچڑاپن اور غصہ اپنے عروج پر تھا۔ اتوار کی رات منگیتر کے بھی نخرے کی انتہا ہوگئی اس کی شرائط کی حد ختم ہی نہیں ہورہی تھی۔
ایک یہاں کی من چاہی تنہائی کی اذیت اور پھر وہاں کے مسائل کا انبار۔ ایک کنواری اور جوان لڑکی ہونا سب سے گھمبیر مسئلہ۔اوپر سے یہ نیا اکاونٹنٹ جو پروبیشن پیریڈ پہ آرہا تھا پتہ نہیں کیسا ہوگا ۔ ان دنوں وہ اتنی الجھ چکی تھی کہ ہر چیز محض بیزاریت کا باعث بن رہی تھی۔ اتوار کو آدھی رات تک وہ منگیتر کی فضولیات سنتی رہی جو اسے وہاں رہنے کے 101 نقصانات گنوا چکا تھا اور وہ سارا ٹائم یہی سوچتی رہی کہ وہ اس شخص کےساتھ مستقبل کیسے گزارا کرے گی؟
پیر کی صبح بڑی عجیب تھی اسے لگ رہا تھا اسے بہت جلد فیصلہ لینا ہوگا۔ ٹیبل پر بکھرے پیپرز ترتیب سے رکھتے ہوئے وہ مسلسل سوچوں میں گم تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ویسے اسے مردوں کے حسین ہونے میں اتنی دلچسپی تو نہ تھی مگر سامنے کھڑا شخص اپنی چمکدار آنکھوں میں اس بات کا تفاخر لئے کھڑا تھا کہ اس لڑکی پر اپنی مردانہ وجاہت کی دھاک بٹھادی جائے۔ اتنی پریشانی کے عالم میں اس کیلئے اس بندے کی فریش مسکراہٹ کافی تھی جس کا اور کوئی مقصد نہیں تھا سوائے اس کے کہ صبح روشن لگنے لگی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی وہ کرسی پہ بیٹھ گیا۔”ایک کپ کڑک چائے بھیجو اندر اور ذرا ڈائریکٹر صاحبہ کو بتاؤ جاکے کہ سامع علی ان کا انتظار کررہے ہیں” اس نے ہاتھوں سے اپنے الجھے ہوئے بال ماتھے سے پیچھے کئے اور دوپٹہ سیٹ کرتی ہوئی اپنی کرسی پہ بیٹھنے لگی کہ سامع علی نے ٹوک دیا "انٹرکام بعد میں کرنا پہلے جلدی سے چائے لا دو میں ابھی ابھی سفر سے آیا ہوں”وہ کرسی پر پھیلتے ہوئے بولا ایک لمحے کو اسے لگا کہ یہ شخص ابھی ٹانگیں ٹیبل پر پسار کے بیٹھھ جائے گا”جی میں ہی ڈائریکٹر…”ابھی اس کا جملہ پورا بھی نہ ہوا تھا وہ پھر بول پڑا”مطلب مجھے یہاں کا سٹاف بھی ٹھیک کرنا پڑے گا” اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا عجیب شخص ہے بلا وجہ بولے چلا جارہا ہے "جی میں شاہینہ عالم!اس سکول کی اکلوتی ڈائریکٹر ہوں۔اب یہ بتائیں کہ پہلے آپ کو چائے سرو کروں یا جاب لیٹر دوں” اس کے چہرے کی پریشانی اور سادہ سے حلیے سے سامع علی اسے مسلسل چپڑاسی کے عہدے پر فائز کئے چلا جارہا تھا۔
نئے اکاؤنٹینٹ کے آجانے سے ایک ڈیپارٹمنٹ کے مسائل تو کم از کم حل ہوئے لیکن ایک مسئلہ جو درپیش تھا کہ یہ شخص ہر چیز میں اپنی ٹانگ ضرور اڑاتا تھا اور شاہینہ کا یہ عالم تھا کہ اکیلے رہ رہ کر اس سے اب یہ بلاوجہ کی مداخلتیں برداشت نہیں ہوتی تھیں۔ پہاڑوں کا حسن اور دورافتادہ گاؤں میں کام کرنا اور رہناخالصتاََ اس کی اپنی چوائس تھی مگر اب زندگی میں سکون کی بجائے بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ کیا تھا جو بے سکون کر رہا تھا ۔اپنی ہی ذات کا گرداب۔ اکیلاپن انسان پہ بہت سے راز افشا کرتا ہے۔ اس پہ کون سے رازافشا ہوتے چلے جارہے تھے کہ وہ اندر ہی اندر مرتی جارہی تھی۔ یہ کیفیت نہ تو وہ کسی کوبتاسکتی تھی نہ خود سمجھ پارہی تھی۔ اس کا منگیتر عفان جو اس کا ماموں زاد بھی تھا اور اسے بہت پسند بھی تھا اور بڑے چاؤ اور ارمانوں سے یہ رشتہ طے ہوا تھا۔ سب کی رضا اور پسندیدگی سے۔ مگر اب اسے گھٹن ہونے لگ گئی تھی عفان کے نام سے۔ اس کا فون آتا وہ اٹھاتی ہی نہیں تھی۔ وہ میسج کرتا تو جواب نہ دیتی اورجواب دیتی بھی کیاوہ بولتا تھا یا مجھے رکھ لو یا پہاڑوں سے محبت کر لو۔
اور وہ، اسے لگتا تھا کہ ان پہاڑوں، ان ندیوں، شفاف پانیوں اور تنہا شاموں نے اسے مکمل کیا ہے وہ تکمیل جو سب کے درمیان رہ کے کبھی میسر نہ ہوئی وہ یہاں اکیلے سب سے دور اس کی سانسوں میں اترنے لگی تھی پھر وہ اداس کیوں تھی۔ اچانک رات میں کسی کے زور زور سے ہنسنے پھر رونے کی آواز آنے لگی۔ وہ ششدر رہ گئی۔ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ اس نے چپل پہنی اور باہر کی طرف بھاگی۔ سٹاف ہاسٹلز کی پچھلی سائیڈ پہ سامع علی اتنی رات کو گھاس پر اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn