Qalamkar Website Header Image

زیست آسان نہیں ہے-فہمیدہ غوری

بوسیدہ دیواریں سال خوردہ دروازہ جس پر لٹکا خستہ حال پردہ جس کا رنگ کبھی تربوزی رہا ہو گا،اتنا پرانا کہ تربوزی رنگ تو افتاد زمانہ کا شکار ہو چکا تھا .اس پردے سے ہر کوئی حسب توفیق استفادہ کرتا تھا۔ کبھی پان کے ہاتھ تو کبھی بہتی ناک .کبھی آٹے سے سنے ہاتھ ،غرض مجموعہ حوادث کا شکار بیچارہ پردہ .اب ہمت کر کے پردہ اٹھا کر اس سال خوردہ پرانے گھر میں داخل ہوتے ہیں .دھڑ دھڑ دھڑام ارے ارے دیکھ کر چلیں نا !گر گئے نا نالی میں! اب آرام سے چلئے گا زندگی کے امتحان اور بھی ہیں .اگے آئیے صحن چمن میں داخل ہوتے ہیں جہاں چمن کے نام پر ادھ ٹوٹے گملے دھرے ہیں .ان میں سدا بہار کے پودے لگے سدا کے پیاسے مرجھائے بہار دکھا رہے تھے .ایک طرف کیاری بنی تھی جس میں ہرا دھنیا، ہری مرچ لگی خاتون خانہ کی سلیقہ مندی کا اظہار کر رہی تھی .ہرے دھنیے کی پتیوں کو ایک چڑیا اور ان کے شوہر نامدار بڑے شوق سے تناول فرما رہے تھے .دو پلنگ جس پر بستر، تکیے ابھی بھی رکھے تھے پلنگ کے نیچے آم کے چھلکے مکھیوں کو دعوت شیراز فراہم کر رہے تھے .سامنے ہی باورچی خانہ تھا جہاں سے پراٹھے اور چائے کی خوشبو لہک کر آ رہی تھی ساتھ برتن پٹخنے کی آواز بھی .آواز بتا رہی تھی کہ کوئی مجبوری میں ناشتہ بنانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ برآمدے میں جد امجد کی نشانی سال خوردہ تخت بچھا تھا .تخت پر رنگ اڑا قالین اس پر پاندان، رحل اور تسبیح رکھی تھی .یہ گھر ہے مرزا شریف دین سوز کا .آپ کو سوز سے اندازہ ہو گیا ہو گا حضرت شاعر ہیں اور سوز .تخلص فرماتے ہیں .شاعر بھی جو روایات کا پابند ،نظریات پر کاربند ،لکھنوی تہذیب کی آخری نشانی .کسی محکمے میں کلرک کے عہدے پرفائز تھے .محکمہ بھی ایسا جس میں نہ اوپر کی آمدنی تھی نہ نیچے کی .تنخواہ بھی بس گزارے لائق تھی .اس مہنگائی میں گزارا مشکل تھا .گھر میں ان کی اماں جو دہلی کے کسی نواب کی رشتے میں نواسی لگتی تھیں .نواب نانا کے سارے نخرے اماں جہیز میں لائی تھیں .بیچارے ابا جو لکھنو کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے ساری عمر نانا نواب کے قصے سن کر اماں کے نخرے اٹھاتے گزر گئے ..ان کو گزرے بھی بہت سال ہو گئے تھے .اب یہ فریضہ شریف دین سوز انجام دے رہے تھےاپنی اماں کے نخرے اٹھانے کا .سوز کی بیگم کا نام شہناز آرا تھا جو ابا کی پھوپی زاد بہن کی بیٹی تھیں .جو کسی زمانے میں ابا کی منگیتر رہ چکی تھیں اس بات کا خمیازہ بھی سوز کو ہی بھگتنا پڑ رہا تھا کہ شہناز آرا سراسر ان کی پسند تھیں .شہناز آرا انجان مرض میں گرفتار ھر دوسرے دن پلنگ پر پڑی ہائے ہائے کرتی نظر اتی تھیں .ان کو وہ امراض تھے جو صرف شہناز کو نظر آتے اور محسوس ہوتے تھے کہ کسی ڈاکٹر کو نہ ملے نہ ہی کسی رپورٹ میں نظر آئے .شہناز مرزا غالب کی دور کی رشتے دار تھیں لیکن سوز کی قسمت اچھی تھی کہ ان کو اماں کی طرح اس کا احساس نہیں تھا ورنہ اماں کے ساتھ بیگم کے ترلے اٹھانا سوز کو بہت مہنگا پڑتا ۔
ان کی بیگم جہیز بھی اچھا لائی تھیں .دہلی کے مزاج کے مطابق درجنو ں چاندنیاں .تانبے پیتل کے برتن ،چاندی کا پاندان ،خاصدان ،گلکاری والا اگالدان ،سونے کی لڑی ،چاند بالیاں ،دو سونے کی چوڑیاں ۔جو ان کی اماں نے اپنا رانی ہار تڑوا کر بنوائی تھیں . شہناز آرا کی شادی پاکستان چوک کی یادگار شادی تھی.میاں کی کم آمدنی نے بیچاری کا آدھا سامان تو بکوا دیا تھا باقی آدھا منتظر تھا ۔میاں کی کم آمدنی گھر کے خرچے ساس کی چخ چخ نے چڑچڑا کر دیا تھا ۔اس پر خود ساختہ بیماریاں.ان سب میں پانچ بچے ہو گئے تین بٹیاں دو بیٹے اور اس پر بیٹیاں بڑی تھیں جو ٹار کی طرح بڑھتی ہی جا رہی تھیں .سنبل سب سے بڑی اس سے چھوٹی نایاب اور سیماب تھیں ،بیٹے زوہیب اور شاہزیب تھے .سنبل میٹرک کےپیپر دے کر رزلٹ کا انتظار کر رہی تھی بیحد نرم خو اور سمجھ دار جسے گھر کے حالات اور اپنے والد کی کم آمدنی ماں کی بیماری نے بیحد حساس بنا دیا تھا .اتنی سی عمر میں چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال اور گھر کے کام سب اپنے ذمے لے لئے تھے .شہناز کے میکے والے اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے .ان کے چچا تایا اپنے خاندانی کام پکوان سینٹر کی بدولت شہر کے شرفا میں شمار ہوتے تھے .جب خاندانی تقریبات میں آنا جانا ہوتا تھا اس دن شہناز کا بی پی ہائی ہوتا تھا یا شوگر ڈاؤن .شاگرد بریانی سینٹر ان کے تایا کا تھا جونہ صرف چل رہا تھا بلکہ دوڑ رہا تھا .ذائقے دار حلیم مرکز چچا کا تھا .بس ایک شریف دین سوز ہی تھے جو نوکری پیشہ تھے ،اوپر سے شاعر، جو مشاعرے میں بھی خالی ہاتھ جاتے اور آتے تھے .بیگم کی دہائی اماں کی صلواتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا وہ بس اپنی کلرکی میں مگن تھے ،چند گنے چنے مشاعرے جہاں ان کی پزیرائی ہوتی تھی .خاندان میں ملنا جلنا بہت تھا دینا دلانا بھی ہوتا تھا جس کے نتیجے میں شہناز آرا کے جہیز کی کوئی چیز کم ہو جاتی تھی .اماں کے ملنے والوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ لگتا تھا آدھا کراچی اماں کا میکہ ہے آدھا سسرال .دن رات چاۓ پانی ،پان چھالیہ کا خرچہ الگ ،کہ اماں بہت مہمان نواز تھیں .بنا خاطر کئے مہمان کو جانے ہی نہیں دیتی تھیں .سب ہی اماں کی محبت کے گن گاتے نہ تھکتے تھے۔ شہناز کا سارا دن چائے بنانے میں گزر جاتا اور ساتھ پان کی گلوری بھی بہت ضروری تھی .کہ یہ پان دہلی کی پہچان تھے .اماں کا حکم کہ پاندان چمکتا ہوا ،اگا لدان دھلا منجھا نیا نکور لگے .چاندنی گاؤ تکیے روزانہ بدلے جائیں .کھانے میں تری ایسی ہو جس میں ڈوبنے کو دل چاہے .روٹیاں الٹے توے کی ہی بنیں گی .بقول اماں کے بھلا سیدھے توے کی بھی کوئی روٹی ہووے ہے .ہفتے میں ایک بار نہاری روٹی بازار سے آنا لازمی تھا کہ اماں کو ذائقے دار نہاری مرکز کی نہاری میں دہلی کی خوشبو ٰآتی تھی .اچار ہر سیزن میں ڈالیں گی گرمی میں آم لسوڑے کا سردی میں سبزی کا .اور شلجم مولی کا پانی والا اچار .جو کٹورے بھر بھر محلے میں بٹتے تھے .شب برات کے حلوے ،کونڈے کی ٹکیاں ،اماں خود اپنے ہاتھ سے بناتی .رمضان میں افطاری ہر جمعرات کو محلے میں بھجواتی تھیں .یہ اماں کا وطیرہ تھا جس پر سالوں سے قائم تھیں .سوز اپنی اماں کے آگے دم نہ مار سکتے تھے ان کا حکم سوز کے لیے آسمانی صحیفہ تھا۔بیچاری شہنازکو نبھانا پڑتا تھا .بچوں کے کپڑےاتوار بازار سے ٹکڑے لا کر اپنا ہنر آزماتیں اور نئے نئے ڈیزائن بنا کر ان کو پہناتی تھی اور سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھی .ابھی تو بچے ناسمجھ تھے سنبل ہی بڑی تھی لیکن وہ اپنی اماں کی سمجھدار بیٹی تھی .ابھی تو گاڑی چل رہی تھی جب بچے بڑے ہوں گے ضروریات بڑھ جائیں گی تب کیا ہو گا .یہ سوال مونہہ کھولے کھڑا ہوتا ۔ایسے ہی ایک دن اماں کی بڑی بہن نور جہاں بیگم کا خط انڈیا سے آیا .اچانک ان کو بہن کی محبت جاگی اور اب وہ پاکستان آ رہی تھیں .سوز سوچوں میں گم بیٹھے آنے والے مہمانوں کے خرچے کا حساب کتاب کر رہے تھے شہناز کبھی میاں کا فکرمند چہرہ دیکھتی کبھی اماں کی کمرے سے اتی چہکاریں سنتی جو پوتے پوتی کو اپنی اور اپنی بہن کے بچپن کے قصے سنا رہی تھیں ۔بڑی دادی کے استقبال کے پروگرام بنا رہی تھیں .سوز کے چہرے کی سلوٹیں گہری ہوتی جا رہی تھیں .دوسرے دن سوز دفتر سے واپس آے تو حیران سے دروازے پر کھڑے رہ گئے بچے اماں شہنا ز سب خوشی سے ڈھیروں سامان لئے بیٹھے تھے جو مہمانوں کی آمد کے سلسلے میں آیا تھا .اماں اپنی بہن بھانجے سے ملنے کی خوشی میں اتنی مگن تھیں کے ان کو بہو کی سونی کلائیاں بھی نظر نہیں آ رہی تھیں .شہناز کے جہیز کی آخری نشانی بھی بک گئی تھی .

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »