ہما خان ضلع ساہیوال کے مضافات کی ایک جگر نثار شاعرہ ہیں۔ معاشرے میں ایسے لوگ خال خال پائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بہتات معاشرے کے ابھرنے کا سبب بنتی ہے اور ایسے جذبہ قربانی سے لیس لوگوں کی وجہ سے معاشرہ میں خلوص، امن و محبت قائم رہتا ہے ہماء و ہ بہن ہے جس نے اپنا جگر اپنے بھائی کو عطیہ کیا ہوا ہے۔ ماشاء اللہ بھائی دو بیٹیوں کا باپ ہے اور خدا کے فضل و کرم سے زندہ و سلامت ہے۔ اپالو ہسپتال نیو دہلی میں جس دم ہماء اپنا جگر عطیہ کرنے کے لیے جگر نکالنے والوں کے انتظار میں بیٹھی ہوگی نہ جانے کیسے کیسے خیالات نے اس پر وش کو گھیرا ہوگا اور ہماء نے اپنے ذہن اور جذبہ ایثار کی روحانی طاقت سے ڈٹ کر اپنی ہماء آنکھوں میں آنسو اور لب پہ تبسم بکھیر کر اپنے مسیحاؤں کیساتھ اپنے بھائی کو جگر عطیہ کرنے کیلئے چلی وہ کیفیت، وقت اور احساس ہماء ہی بتا سکتی ہے۔ ہماء کو اپالو ہسپتال نیو دہلی کے ڈاکٹروں سے اتنا محبت، خلوص اور پیار ملا کہ ہماء نے اپنی پہلی کتاب کا انتساب لیور ٹرانسپلانٹ اسپیشلسٹ انڈین ڈاکٹرز ڈاکٹر شبھاش گیتا، ڈاکٹر مانوو وادھوان، ڈاکٹر شری شر، ڈاکٹر پراتھا پان ویلیا کمبراتھ، ڈاکٹر اینڈ پروفیسر نیتورنگ اینڈ آل ٹیم آف سرجنز اینڈ ڈاکٹرز اور لیور پیشنٹس کے نام کیا ۔ ہماء کی اس کتاب کے انتساب میں دو سوال چیخ رہے ہیں۔ پہلا سوال کیا ملک خدادا میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں بن سکتا۔ جس کے بن جانے سے عوام کی سفری و معاشی اذیت کم ہو سکے دوسرا سوال ہے کہ مسیحان پاکستان کے ضمیر میں بھی ایسی محبت، ہمدردی، احساس، اخلاص موجود ہے کہ جس کے تاثر سے کوئی جگر نثار آدمی اپنی تصنیف کا انتساب ان کے نام کرتے ہوئے فخر محسوس کرے گو ہماء کی تخلیق کردہ پہلی تصنیف حلقہ ادب میں کتاب نہ مانی جائے مگر پہلا قدم، پہلی تختی تو ضرور ثابت ہوگی جس کی وجہ سے ہماء کا سفرِ سخن پختہ ہوگا اگر ہماء اپنے ادبی سفر میں ادبی قدم جما جما کے چلی تو ضرور ایک دن حلقہ ادب میں نمایاں مقام حاصل کرے گی اور ہماء کا جانثارانہ پہلا قدم جگر نثاری ہماء کی زیست میں ہر قدم پر بھاری رہیگا۔ اب ہم ہماء کے جذبہ شعر سخن کی طرف بڑھتے ہیں۔
دیکھتے ہیں ہماء نے ادب کی مٹی کو کیسے اپنے ہاتھوں سے نرم کرکے ایک کیاری بنائی اور اس میں کیسے کیسے محبت، خلوص، عقیدت کے بیج بوئے جو کلی کی صورت پھول بن کر مہکنے لگے۔
اس شعر میں معاشرے کی اجتماعی مایوسی کا عکس دکھانے کی کوشش کی ہے۔ شاعرہ نے اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ حویلی گھر کے مکمل ہونے کی دلیل ہے۔ مگر حویلی تک پہنچ جانے والا گھر جس میں مکین نہ رہے تو ویران ہو جاتا ہے اس کیفیت کو شاعرہ نے اپنے انداز سے پیش کیا ہے۔ شعر دیکھیے
ٹوٹی ہوئی دیواریں ہیں مری اور مجھے دیکھو
کوئی اجڑی ہوئی اک ویران حویلی ہوں میں
تھکے ہوئے بدن سے خود کو خود ہی مضبوط کرتے ہوئے انسان اپنے آپ کو دلاسہ ، سہارا اور امید کے حوالے کرتا ہے۔ آپ ہی اپنی ڈھارس بندھاتا ہے اور پھر سفر زیست شروع کردیتا ہے۔ زندگی میں یہ عمل انسان میں تسلسل سے جاری رہتا ہے۔ اسی عمل کو حرفوں کا پیرہن دے کر شاعرہ نے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ قطعہ دیکھیے۔
خالی دامن ہیں آسمانوں کے
بادل آہیں لیے اترتے ہیں
گھر بناتے ہیں اس محلے میں
جس میں سورج چاند نکلتے ہیں
آخر میں شاعرہ کی وہ نظم پیش کرتا ہوں جسے پڑھ کر بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے اور میں نے شاعرہ کو دعا دی ۔ نظم دیکھیے۔
وہ جو تھے خاصہءِ خاصانِ رُسل
کرنے لگے صحراؤں، بیابانوں میں سفر
حیرت میں تھی زمانے کی نظر
کیا لڑے گا؟ حسینیؑ قافلہ یہ مختصر
حسینؑ نے اپنے چمن کے سارے پھول
بکھرا دیے خود خاکِ کربل پر
واہ رے حوصلہ نواسہءِ رسولؐ تیرا
کٹایا سر، بدلہ نہ اصول تیرا
باطل کی آنکھ پہچان نہ سکی
وحی میں تھا پوشیدہ نزول ترا
دینِ محمدیؐ پہ بہا کے لہو
مہکے گا دشتِ کربل میں پھول تیرا
دشمن کے نرغے میں حسینؑ آیا
ہرگز نہ اپنے سر کو جھکایا!
ترجیح دی عزت سے موت کو
بدلہ نہ اپنا موقف نہ عزم ہٹایا
واہ رے ہمت حسینؑ مولا کی
خاکِ کربل پر اک اک گوہر لٹایا
شام غربیاں تھی منتظر زینبؑ کی
اب کے خیموں میں تنہا زینبؑ تھی
دل میں غم حسینؑ لیے
صبر کی عمارت بنی زینب ؑ تھی
چپ تھی دلگیر نہ بولتی تھی
رضائے خدا تھی نظرِ زینبؑ کی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn