اس وحشت زدہ ماحول میں آج کل تقریباََاکثریت معاشرہ علم بریدگی ،جہالت پروردگی ،گرم و سردچشیدگی ،ہمہ وقت آرامیدگی،خوشامد گزیدگی،ذہن ژولیدگی اورذہنی آمریت پیوستگی کے باعث اس قدر متکبر ہو گیا ہے کہ فراعنہ کا تبخراور ہامان و شیطان کا غرور ان کو دیکھ کر لرزہ بر اندا م ہو جاتا ہے ۔مگر تمثیلہ کی سادگی ،سچائی،اور شیریں لہجہ گوش میں رس گھول کر انسان کے منجمد جسم میں زندگی کی لہر دوڑا دیتا ہے۔نا آشنا ہونے کے باوجود بھی پہلی ہی بات پراجنبیت رفو چکر ہو جاتی ہے۔اور اپنائیت گلے میں بانہیں ڈال کر جھومنے لگتی ہے۔دونوں اطراف سے قلب میں ہلچل ،جگرمیں ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی ہے۔زبان سے قلب کا سلسلہ متصل ہو جاتا ہے۔آنکھیں کسی اجنبی کے کھوج میں اپنے خانے سے حرکت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ اور ذہن روائتی انداز سے بغاوت کر کے جدت کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔یوں زندگی ایک زندہ شخصیت سے بولنے کا ہنر سیکھنا شروع کر دیتی ہے ۔
علامہ محمد اقبال کی پیدائش نے ضلع سیالکوٹ کوزمینِ سخن میں شہر معلی قرار دے دیا ہے۔اس شہر سے خوشبو ءِ ادب سدا مہکتی رہتی ہے۔اور طالبانِ اد ب قلم اور قرطاس کے ذریعے اپنے ذاتی اظہا رکو ترتیب دینے میں ہر وقت محو ومگن ہیں۔ ویسے اس شہر میں بہت سی شاعرات نے جنم لیا ہے ۔مگر تمثیلہ شجر سے کٹ کے گری ٹہنی کی مانند زندگی گزارنے والی تحصیل پسرور کی شاعرہ بیٹی ہیں یہ وہ کلی ہے جس کی انفرادیت ، احساسی حوالے سے نمایاں ہے ۔ تمثیلہ کا پہلا شعری مجموعہ(کوئی ہمسفر نہیں ہے) 2004میں ماوراء پبلشر ز والوں نے طبع کیا جو مجھے بزریعہ ڈاک موصول ہوا تو ساتھ ہی درجن بھر ادبی مجلہ جات کی کاپیاں بھی بصورت دستاویزات ملیں جن ادبی رسائل میں تمثیلہ کا کلام چھپا پڑھ کر بہت خوشی ہوئی اور میں تمثیلہ کی شاعری پڑھ کر حیاتِ تمثیلہ کی بے مثال پر تیں پلٹنے لگا تو محسوس ہو ا کہ تمثیلہ دکھ، درد ،اور کرب کی شاعرہ ہیں ۔جس لڑکی کو جہان زیست میں آ نکھ کھولتے ہی پہلی چیخ کے ساتھ ماں باپ کے علاوہ کسی اور انسانی رشتہ کی مہک نہ ملی ہو بچپن سے ایامِ بلوغت تک فقط ماں سے صبر کے دلاسے سنتی رہی ہو اور خاموش طبع باپ کو چوبیس گھنٹے آنکھوں میں آ نسو سجا سجا کے مھرو محبت بھرا تبسم بکھیرتا ہوا دیکھتی رہی ہو اور باپ اپنی اکلوتی بیٹی کو اپنا بیٹا بھی کہتا ہو تاکہ میرے اس لفظ سے بیٹی شناسا ہو کر اپنی زندگی کے اس کٹھن مرحلے کے لیئے خود کوتیا ر کر لے جب کہ اسے بیٹی ہونے کی صورت بھی بیٹا بن کے جینا ہے۔بیٹی کی شادی کے ساتھ ماں اورباپ دونوں بیٹی کو بحرِزیست کی موجوں کے حوالے کرکے خودبقاء دائمی کی طرف چل پڑے ہوں وہ بچی جس نے ماں باپ کے علاوہ گھر میں نہ بھائیوں کی الفت بھری شرارتیں دیکھی ہوں نہ بہنوں سے محبت کر سکی ہو۔ازدواجی زندگی میں بھی شوہر کے جبر کی چکی میں ادھ پسے دانوں کی طرح ٹپکتے ہوئے اُصولِ تحریر کو گلے لگا کراس رشتہء حیات سے بھی کٹ چکی ہو۔نرم پاؤں کے نیچے پتھریلی زمین اورجھیل نماء زلفوں کے اُوپربے رحم آسمان کے علاوہ کچھ نہ دیکھائی دے تو وہ لڑکی شاعری نہ کرتی تو اور کیاکرتی۔سردیوں میں کرائے دار کمرے کی چھت اور گرمیوں میں آسمان ہی اس سے باتیں کرتا ہے اور وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو سینے سے لگاکر لوری ہی تحریر کرتی ہے۔ ابلتے ہوئے حالات کی بھینٹ چڑھ کر زندگی کی ہانڈی میں محلول بنتا ہوا انسان درد ہی تحریر کرتا ہے۔ اپنے اظہار میں دکھ ہی سناتا ہے۔ درد کی اس تصویر کو حرفوں کے ذریعے لفظوں کا پیرہن دیکر آدمی آنکھ جھپکنے تک کیوقت کی خوشی محسوس کرتا ہے اور پھر آتش حیات کو بھڑکانے کیلئے خود کو بے مہر انسانوں کے تیز نما طنزیہ لہجوں کی اذیت سے گذار کر اپنی جان کو سوچ کے دہکتے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔ جہنم وہ وادی ءِ بے رحم ہے جہاں آگ جسم کو راکھ نہیں کرتی بلکہ جلانے کیساتھ ساتھ زندہ کرتی رہتی ہے اور جسم انسانی کو وحشت ناک خوف میں مبتلا کرکے صلیب حیات پہ لٹکائے رکھتی ہے۔ جہاں پر موت نہیں آتی بس اذیتیں اترتی رہتی ہیں۔ میں سوچتا رہتا ہوں ایک عورت ایک بیٹی ایک بہن ایک ماں کس طرح تنہائی میں دشتِ حیات کو عبور کررہی ہوگی۔ زندگی کا ایک دن بصورت کوہ دکھائی دیتا ہے اور وہ تنہا لڑکی کس طرح اس بے ترتیب پتھروں کی اُٹھان پر اپنے نرم و نازک پاؤں رکھ کر سفر اختیار کرتی ہوگی۔ پاؤں میں کانٹے چھبتے ہوں گے، نوکیلے پتھروں کے لگنے سے پاؤں کی نرم و نازک انگلیوں سے لہو ٹپکتا ہوگا۔ کبھی گر پڑتی ہوگی تو جسم مامتا کی رحمت پتھروں کے سپرد ہوجاتی ہوگی۔ حسرتیں سینہء بلبل میں دم توڑنا شروع کردیتی ہوں گی۔ رخسار پتھروں پہ پٹختا ہوگا، آنکھ سے آنسو نہیں خون بہتا ہوگا، جبیں ماہتاب گل رنگ ہوجاتی ہوگی، زلفیں سیاہ چادر کی صورت بکھر جاتی ہوں گی اور وہ تنہا لڑکی جسد بوسیدہ ازدواجی پیرہن سے کہنیاں جھانک رہی ہوں گی اور جس کا سہارا سوائے خداوند قدوس کے کوئی نہیں ہے۔ اپنا نحیف سا بدن کس طرح اپنی خودی کے سہارے کھڑا کرکے پھر دشتِ حیات کی ظلمت بھری وادیوں میں سفر کرنا شروع کردیتی ہو گی۔
کس طرح اپنے یتیم بچے کی معصوم خواہشات کا احترام کرتی ہوگی، سکول خرچ، یونیفارم آسمان کو چھوتی تعلیمی اداروں کی فیس ہائے بچے کی خوراک، موسمی ملبوسات اور عید کے دن محلے کے بچوں کے برابر خلعت و عید خرچ جب معصوم بیٹا اپنی یتیم تنہا ، بے کس مجبور، کرب تحریر کرتی شاعرہ تیرِ طنز سے چھلنی بدن ماں سے مانگتا ہوگا تو وہ قیامت کی گھڑی کس طرح مضطرب ماں کے سر سے ٹلتی ہوگی۔ مجھے لگتا ہے ماں اپنے اشکوں میں بھیگ جاتی ہوگی اور بیٹا اپنی ماں کی آغوش میں بیٹھ کر ماں کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے معصوم ہاتھ ماں کے رخسار پر پھیرتے ہوئے آبِ زمزم نما پانی سے اپنی تشنگی دور کرتا ہوگا اور کہتا ہوگا امی رونا بند کرو میں عید کی خرچی نہیں مانگتا تو ماں اندر سے ٹوٹ ٹوٹ کر آنسو کے لہجہ میں ہونٹوں پر تبسم بکھیرتے ہوئے اشک ضبط کرتی ہوگی اور بیٹے کو پیار کرکے بستر پر لٹا دیتی ہوگی اور خود ایام زیست کا مطالعہ شروع کردیتی ہوگی۔ آئیے میرے معزز، محترم قارئین! اب میں آپ کو تمثیلہ کی بیمثال شاعری کی طرف لیے چلتا ہوں۔ غزل دیکھیے۔
دل میں ہر درد کو جگہ دی ہے
اس محبت نے کیا سزا دی ہے
جب بھی بجھنے لگے غموں کے چراغ
اپنے دامن سے پھر ہوا دی ہے
تجھ کو ڈھونڈا گلی گلی میں نے
بستی بستی تجھے صدا دی ہے
تجھ کو احساس تک نہیں آیا
دل کی نازک کلی جلادی ہے
آنکھ کے راستوں سے ہم نے دوست
تیری ہر آرزو بہا دی ہے
سخت جاں کس قدر ہے تمثیلہ
زخم کھا کر بھی مسکرادی ہے
کیا خوبصورت جذبہ ہے کہ ہم پر لوگوں نے جتنے ظلم و ستم کیے ، ہمارے راستوں پہ وحشت پھیلائی، ہمیں اندھیرے میں دکھیلا، ہمارے آگے دیواریں کھڑی کردی گئیں، ہم پے نعمت خداوندی کو بند کرنے کی آدمی حرکتیں ہوتی رہیں مگر ہم نے سب کچھ بھلاکر اپنا سفر اختیار کیا۔ مخالف دیواریں گرادیں۔ اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کردیا، ظلم و ستم کرنے والے ستم گروں کی پرواہ کیے بغیر سفرِ جنوں جاری رکھے ہوئے۔ دیکھیے غزل
کیا کیا ظلم کسی نے ہم پہ یار کیے
ہم نے اس تصویر کے ٹکڑے چار کیے
پہلے شب بھر روئی ہجر کے لمحوں میں
پھر یادوں کے دریا میں نے پار کیے
عشق نبھانا تیرے بس کا کام نہ تھا
اشکوں سے یہ دامن میں نے تار کیے
میں نے پیار میں سمجھوتا ہی کرنا تھا
اس نے تو سب رستے ہی دشوار کیے
ظلم کمایا اس نے دنیا داری میں
کیا کیا اس نے سب جھوٹے کردار کیے
ایک محبت کرکے میں پچھتائی ہوں
اس نے ہر اک دور میں کتنے پیار کیے
میں تمثیلہ عشق نگر کی شہزادی
اس کی خاطر سب اسٹیشن پار کیے
شاعرہ کی یہ غزل احساس محرومی میں رقم ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مایوسی نے غزل کے ہر لفظ کو لپیٹا ہوا ہے۔ یہ بھی ایک کیفیت ہے جو سچ سچ بیان کردی گئی ہے اور شاعرہ نے اپنی ذات کیلئے کہی ہے یہ غزل نہ کہ معاشرے کیلئے کیونکہ معاشرہ کو مایوسی نہیں دینی، امید دینی ہے۔ دیکھیے غزل
روشنی دل میں وہ کہاں ہے اب
آرزوؤں کا بس دھواں ہے اب
دل کے آنگن میں تیری یادوں کا
ایک ہلکا سا گماں ہے اب
بدگماں تھی کبھی زمیں مجھ سے
میرا دشمن یہ آسماں ہے اب
منزلوں کا پتہ تھا جس پہ رقم
زد پہ آندھی کی وہ نشاں ہے اب
یاد آتے تو ہو مگر ہمدم
پہلی شدت سی وہ کہاں ہے اب
دیکھ اس کے بغیر تمثیلہ زندگی
اپنی رائیگاں ہے اب
انسان جب زندگی میں ناکامی دیکھتا ہے تو وہ ایک بند خول میں مقید ہوکر سوچتا ہے کہ اب میں کہاں سے راستہ نکالوں ہ زیست کا سفر جاری رکھ سکوں۔ کہاں سے روشن داں نکالوں کہ اندھیرے میں سورج کی کرنیں نمودار ہوں ، کس طرح شام آلام کو ٹالوں، کسطرح رات بسر ہو، کس طرح کرنمودار ہوگی اگر، اگر اس مصیبت میں مرد ہو تو وہ بھی چیخ پڑتا ہے مگر میں تمثیلہ کو دل سے داد دیتا ہوں کہ وہ عملی طور پر اس خار دار تار کا سفر جاری رکھے ہوئے اس موضوعِ وحشت ناک کی عکس بندی شاعرہ کی ایک نظم مقدر میں ، نظم دیکھیے۔
یہ اندھیرے ہی جب اپنا مقدر ٹھہرے
پھر سر شام چراغوں کو جلاؤں کیسے
اپنی آنکھوں میں کوئی خواب سجاؤں کیسے
تنکا تنکا تو ہواؤں نے بکھیرا ہے میرا
اب کے دوبارہ نشیمن میں بناؤں کیسے
تو نے جو زخم دیے دل میں چھپا کے رکھے
حالِ دل تو ہی بتا سب کو سناؤں کیسے
عہد رفتہ کی ہر اک یاد رلائے مجھ کو
اب کسی سمت کہیں چین نہ آئے مجھکو
یہ میرے خواب ہیں کیا؟ ان کی حقیقت کیا ہے؟
تجھ کو معلوم ہیں دراصل محبت کیا ہے؟
ہم تو روتے ہیں تڑپتے ہیں
سسکتے ہیں ابھی
یہ اندھیرے تو ہر موڑ پے ڈستے ہیں ابھی
میں نے چاہا تھا کہ آنکھوں میں سجا لوں سپنے
مجھ کو معلوم نہ تھا سپنے بکھر جاتے ہیں
دل میں رہتے ہیں جو
دل سے اتر جاتے ہیں
میں نے ہر لمحہ اندھیروں سے بغاوت کی ہے
روشنی تجھ سے فقط تجھ سے محبت کی ہے
ہاں مگر ہر گام پہ میں نے ہیں اندھیرے پائے
ہائے یہ کیسا مقدر ہے میرا
ہائے۔ ہائے
میں آخر میں اپنے خوبصورت پر فکر قارئین کیلئے شاعرہ کی دو غزلیات پیش کرکے اجازت لیتا ہو۔
غزل
دل کو کہاں قرار ذرا دن میں رات میں
ایسی کوئی لکیر نہیں میرے ہات میں
مثل شرار مجھ پہ تو برسا ہے کس لیے
تلخی تھی اس قدر بھی کہاں میری بات میں
ابر کرم ادھر بھی کبھی ٹوٹ کر برس
صحرا کی تشنگی ہے میرے کنج ذات میں
جاؤں میں جس طرف بھی رہ زندگی کے بیچ
بیٹھے ہوئے ہیں میرے عدو میری گھات میں
دامن میں آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں رہا
الجھی ہے جب سے آنکھ میری کائنات میں
دل کو کہیں قرار نہ تمثیلہ مل سکا
جاگا ہے ایسا کرب کوئی میری ذات میں
کیا خوبصورت سلیقہ سے شاعرہ نے مرد و زن کی محبت میں محلول بن کے محبت کو قلم کے ذریعے قرطاس پہ بکھیرا۔
بنتی ہے روگ دل کا محبت کبھی کبھی
کرتی ہے زخم زخم عنایت کبھی کبھی
خوابوں پہ کوئی پہرہ نہیں ہے مگر اے دوست
اچھا ہے روبرو ہو حقیقت کبھی کبھی
اس دل کے آئینے میں ذرا بال تک نہ آئے
کرتی ہوں اس لیے میں شکایت کبھی کبھی
تم لاکھ ہم پہ جور و ستم کو روا رکھو
لیکن ذرا سی یار عنایت کبھی کبھی
ہم بھی تمہارے چاہنے والوں میں ہیں شمار
دیکھا کرو ہماری بھی حالت کبھی کبھی
میں اس طرف ہوں اور وہ تمثیلہ اس طرف
لگتی ہے دل پہ بار یہ صورت کبھی کبھی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn