جس طرح ایک پختہ تجربہ کار سپہ سالار میدان عمل میں اترنے والے نومولد جوان کی حوصلہ افزائی اپنا فرض سمجھتا ہے یہ بات سپاہ سالار کے فرائض میں شامل ہے کہ میدان عمل میں وہ تنہا نہ رہے ہر آنے والے مجاہد، سپاہی کی تربیت و حوصلہ افزائی سے اپنی سپاہ میں اضافہ کرتا رہے۔ اسی طرح میدان شعر و ادب میں بھی میں سمجھتا ہوں آنے والے نوجوان شعراء کی حوصلہ افزائی فرض ہے تاکہ نوجوان نسل میدان عمل میں مقابلہ کیلئے تازہ دم رہے اور ان کے جذبات کو دھوپ کی بجائے میٹھی میٹھی چھاؤں میں پختہ کیا جائے تاکہ آنے والے وقت میں وہ دھوپ کی شدت کا مقابلہ استقامت کیساتھ کرسکیں جس طرح ایک پھول کو زیادہ سردی اور زیادہ گرمی سے بچاکر ماحول کو معطر کرنے کیلئے اس کی حفاظت کی جاتی ہے اسی طرح میدان شاعری و ادب کے پھولوں کی بھی حفاظت ضروری ہے۔
میں آج جس نوجوان شاعرہ کی شخصیت اور شاعرہ پہ لکھنے کی ٹھان بیٹھا ہوں وہ اسلام آباد میں ایف ایس سی پری انجینئرنگ کی طالبہ ہیں۔
محترم و معزز بزرگ شاعر جناب اختر عالم صدیقی مرحوم کی نواسی ہیں آج کل اختر عالم صاحب کے ایک شاگرد سے شاعری کی اصلاح لے رہی ہیں۔ اس کا شوق تخلیق ہی اس کی ذہانت و فطانت کا گواہ ہے۔ ذوقِ تالیف و تصنیف نے انہیں گیارہ سال کی عمر میں پاکیزہ ، معصوم تخیلات کو تخلیق کی شکل دینے کیلئے نرم ہاتھوں میں پختہ قلم تھمادیا تو عزہ انور نے بچوں کی کہانیاں لکھنا شروع کردیں اب جبکہ عمر کیساتھ قلم کی پختگی انہیں میدان شاعری میں لے آئی ہے اور شاعرہ اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں شعر کی لگن میں مگن دکھائی دیتی ہ۔
عزہ انور ہمکتی جوانی کی بے پایاں شوخی سے مزین شاعرہ ہیں۔ عزہ انور اولیاء ذہانت کے قافلہ سالاروں میں شامل ہونے کی تگ و دو میں شامل ہوچکی ہیں۔ میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ آنے والے وقت میں ان کی خلاقی کا لوہا مانا جائے گا۔ مسائل علم و ادب پر جب وہ زبان کھولے گی تو لفظ معنی کے لاکھوں موتی رولے گی اور افراط سے کہ سامعین کو اپنی کم سوادی کا احساس ہونے لگے گا۔ وہ بلا کی ذہین اور قیامت کی شاہد باز معلوم ہوتی ہیں اور یہ وہ ذکاوتِ مخصوص ہے جو دنیا کے تمام عظیم فن کاروں میں پائی جاتی ہے اور اس کی توفیقات کھوکھلے پن کے بے توفیق افراد پر ہنسے گی۔ امید ہے آنے والے وقت میں یہ شخصیت کا روپ دھار کے پاکستان کے ماتھے کا ٹیکا ، اردو زبان کی آب رو اور شاعری کی مانگ کا صندل بنے گی۔ شاعرہ کی غزلیات تو مجھے میسر نہیں آئیں مختلف اشعار کی بات کرتا ہوں۔ آب بھی عزہ کی شاعری دیکھیے۔
امید معجزہ کے تطہیری تخیل میں کیا خوبصورت شعر کہا ہے شاعرہ نے ، شعر دیکھیے۔
ایک ان ہوتی ہوتی ہو جائے
گر ہوائیں جلا دیں میرے چراغ
عقیدت و محبت اور ایمانیت سے دمکتے چمکتے جذبات کو حرفوں سے مزین کرکے لفظوں کا پیرہن دیکر قرطاس پہ قلم سے نور بکھیر دیا ہے شاعرہ نے شعر دیکھیے۔
میری آنکھوں میں اگر نور ہے اترا عزہ
میری آنکھوں میں ہیں سرکارؐ مدینے والے
ہمیں کوئی شک نہیں تحریر اگر محرر، دکھ، درد، کرب میں خود کو محلول کرکے لکھے تو ہر پڑھنے والا جب تحریر پڑھتے ہوئے روتا ہے تو روتے ہوئے چیختے ہوئے دھاڑیں مارتے ہوئے لفظ اسے رلا دیتے ہیں، شعر دیکھیے۔
اشک الفاظ بہاتے عزہ
درد گر درد کے مارے لکھتے
انسان کو ہر وقت اپنا حوصلہ بلند رکھنا چاہیے۔ انسان جب اپنے ہدف پہ پہنچتا ہے زندگی میں ترقی کا زینہ عبور کرتا ہے تو مخالفین خود بخود شامل کاروان ہوجاتے ہیں۔ انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ مسلسل سفر طے کرنے میں ہی عافیت ہے۔ عرہ کا یہ شعر مجھے مایوسی کی حالت میں تحریر کردہ معلوم ہوتا ہے۔ شعر دیکھیے
گر بغاوت نہ بال و پر کرتے
آسمانوں کا ہم سفر کرتے
خاک کربلا میں درد کربلا کی تاثیر بتانے کی کوشش کی عزہ انور صاحبہ نے میں دل سے دعا اور سلام پیش کرتا ہوں شاعرہ کو جس نے امام عالی مقام کے حضور سلام پیش کیا اور عقیدت و محبت سے منقبت پیش کی۔ شعر دیکھیے۔
سانحہ اس میں رقم کربل کا اور شبیرؑ کا
چہرہ خوں آلودہ ہے پڑھ لو میری تحریر کا
کربلا کے معرکے میں زورِ حیدرؑ کا ہے زور
کربلا اک معرکہ ہے خون کی تاثیر کا
فاطمہؑ کا لعل وہ ابن علیؑ جانِ رسولؐ
سرکٹا کر حق ادا وہ کرگیا توقیر کا
اے یزید وقت تیری موت ہے قتل حسینؑ
دوسرا رخ ہے یہ تیرے ظلم کی تصویر کا
دشمن دین محمدؐ پر ہوا طاری تھا خوف
معجزہ کربلا نے دیکھا نعرہ تکبیر کا
فاطمہؑ کا چاند عزہ سربلند و سرخرو
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn