خیر سے رمضان المبارک کی آمد آمد ہے. عید کے آس پاس سالانہ بجٹ بهی پیش ہونے جا رہا ہے. قوی امید ہے کہ ہمیشہ کی طرح حکومت عوام کے لئے ریلیف مہیا کرنے کی "اپنی سی ” بهرپور کوشش کرے گی. حکومت کے دیئے گئے ریلیف کے ذکر سے بهلے وقتوں کا اک لطیفہ یاد آجاتا ہے جسے یار لوگ آپ بیتی سمجه کر لطف لیا کرتے تھے.
سلسلہ کچھ یوں ہے کہ ایک تها بے چارہ تنخواہ دار ملازم ( جملے میں”بےچارہ” قطعی اضافی محسوس ہو تو معذرت) جسکی سفید پوشی کا بهرم صابن ، نیل اور بیگم تینوں ہی بمشکل رکھ پاتے تهے . مہینے بهر کی مشقت کے بعد تنخواہ ملتی تو لین دین والوں کا حساب چکتا کیا جاتا. ادهر لگی بندهی رقم گهر آتی اور ادهر منٹوں میں حقداروں میں تقسیم ہوجاتی .اللہ اللہ خیر صلا . آمدن اور اخراجات کا حساب ٹچ بٹن کی طرح فٹ بیٹهتا ، نہ ایک پیسہ کم نہ ایک پیسہ زیادہ.
ایک دن اللہ کا بندہ تنخواہ وصول کرکے گهر آیا اور حسب معمول آتے ہی حساب کتاب شروع کر دیا. بیگم دستر خوان لگا کر انتظار کرنے لگی. کچھ دیر گزری اور صاحب دسترخوان پر نہ پہنچے تو بلانے کو چل دی. کمرے میں داخل ہوئی تو دیکها کہ صاحب انتہائی تشویش کے عالم میں ہاتھ میں پانچ سو کا نوٹ تهامے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں. گهبرا کر بولی؛ خیر تو ہے؟ کیا ہوا؟ اسقدر پریشان کیوں ہیں؟ ”
صاحب تڑپ کر بولے؛ ” کیا بتاؤں بیگم! عقل دنگ ہے .میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا. تمام خرچوں کا حساب لکھ بیٹھا ہوں مگر پهر بهی یہ پانچ سو بچ رہے ہیں.”
یہ تو تها گئے وقتوں کا تذکرہ مگر اب صورتحال بدل چکی ہے. الحمد للہ !اب ہر آنے والی حکومت نے اپنے دور حکومت میں عوام کی "خدمت” کے لئے ایک سے بڑهکر ایک نت نئے ریلیف پیکجز متعارف کرائے اور عوام کی ایسی خیرخواہی ثابت کی ہے کہ اب پانچ سو کا نوٹ اور اس کے بچ جانے سے پیدا ہونے والی پریشانی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn