Qalamkar Website Header Image

حاصل ہے زمانے میں جنہیں نظمِ طبیعی

اچھی نظم کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ یہ کامل کیفیت کی اسیر ہوا کرتی ہے۔ نظم کی کائنات میں، کیفیت سے باہر صرف خلاء ہے۔ نظم گو کا تخیل ، احساس حتّیٰ کہ نظریہء جمال بھی کیفیت کے قانونِ کشش ثقل کا پابند ہو کر اِسی زمین اور اسکی زمینی سچائی سے جُڑ جاتا ہے۔
کوئی بھی جذبہ یا احساس ،نہاں سے عیاں ہونے کے مرحلے میں گریز سے جس قدر بھی قریب ہو،کیفیت کی ادائے حُسنِ طلب سے رام ہو ہی جاتا ہے سو جب محبوبیت کا اندازِ نظر میسر آئے تو رنج، حزن ،ملال حسرت و واماندگی جیسی پژ مردہ دوشیزاؤں میں بھی ادائے دلنوازی پیدا ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے نظم سے اسی طرز پر معاملہ کیا اور ان تمام جذبات کو حسّاسیت کے جلو میں لیکر اثر آفرینی کی اوجِ کمال تک لے گئے۔
جمال دوستی انسان کو بہت حد تک جانبدار بنا دیتی ہے ،یوں کہ پھر رنگ ،روپ ،آواز ،منظر ،ہر شئے میں خوبصورتی حاوی نظر آتی ہے۔ یہی معاملہ حرف و سخن، شعر اور نظم کے ساتھ ہے۔ جمال دوست ،سطروں میں گردش کرتے مضمون کی حدت محسوس کرنے سے پہلے ہی آرائش ِ خیال کے طلسمی حُسن میں کھو جاتا ہے،دل لبھاتی تراکیب کا حُسن ،،،،
سطروں کی ساخت اور ترتیب کا حُسن،،،،،

اور یوں اصل کہانی کا نشان ، زیبِ داستاں کے بہکاوے میں آئے مسافر کی پہنچ سے دور ہوجاتا ہے مگر ڈاکٹر صاحب کی نظمیں رنگ ،روپ ،چلن اور سبھاؤ میں تو جمال پرستوں کی دلفریب چاہت جیسی ہی ہیں لیکن جہاں جہاں پردہء دل پہ انکے حُسن کے خمار کا رنگ نہیں چڑھتا ،وہ کورے دھبے خود کو سوالوں سے بھرتے دکھائی دیتے ہیں،سوال جو کہیں تاسف ،کہیں تحیر اور کہیں خالی پن سے نکلے ہیں۔ "تاسف”،جو خوابوں کو تماشا کہنے پہ اُمڈتا ہے۔ "تحیر” جو اس تماشے کو رایگاں سمجھنے والوں کو دُھتکارتا ہے ، "خالی پن "جو اس رایگانی کے خلاء میں بے وزن تیر رہا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ سوال ، جمال دوستوں کو بہکنے کے بعد سنبھالا دینے کو بہت ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی نظم کے پہلے مجموعے "آخری دن سے پہلے” اور "موہوم کی مہک” کے بیچ اکیس برسوں پر محیط فاصلہ فنّی ،تکنیکی یا شعوری پختگی کی بار داری کے اعتبار سے خارج از بحث ہے۔ اس پر بات ان گزرے شب و روز سے وابستہ تجربات پر ہی ہو گی کہ جو بیتنے سے لیکر نظم ہونے تک سہے اور سہارے گئے۔

حسّاسیت اور کیفیت کی مرقع ان نظموں کا بہاؤ پانی کے ریلے جیسا نہیں بلکہ پگھلے ہوئے موم کی طرح قطرہ قطرہ سرکتے ہوئے اپنا نقش چھوڑتا جاتا ہے۔
انکا آغاز سُلگتے شعلے کے ساتھ لو دیتا ہے اور پھر جیسے پگھلا ہوا موم ،تہ در تہ بہتے ہوئے، موم بتی سے لپٹ کر الگ ہوتے ہوئے بھی پھر سے اسی کے وجود کا حصہ ہو جاتا ہے ۔ یہ نظمیں بھی قاری کو آخری سطر تک پہنچتے پہنچتے اسی صورت گرفت میں لے لیتی ہیں۔
"موہوم کی مہک ” سمیت نظموں کے عنوانات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ایک چیز جو بہت نمایاں اور قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ مضامین اور قدرتِ بیان کے بیچ کا ربط بیشتر، بظاہر سوالیہ ہے مگر اصلا” جواب کے پٙرتو میں ڈھلا ہے ۔ شاعر کا باطنی تجربہ ، کائناتی سطح پر بکھرے بے شمار گنجلک سوالوں کے جواب کی صورت ،کھوجنے والوں کی تگ و دو کا ثمر بن کر سطروں میں سمیٹ دیا گیا ہے ۔ کوڈ کو ڈی کوڈ کرتے جائیے اور منزل بہ منزل رواں دواں رہیئے۔
نظموں کی قرات جس قدر دلچسی کی حامل تھی ،انتخاب کا مرحلہ اس سے بڑھکر پُر لطف رہا ۔ نظم در نظم صفحہ نوردی کے تجربے کے دوران بے شمار پڑاؤ تھے ۔ بہر کیف یہ دو نظمیں اور تائثرات پیشِ خدمت ہیں۔
کتاب کی پہلی نظم

یہ بھی پڑھئے:  ملاقاتیں کیا کیا - صدیف گیلانی

١ ۔ "جوتے بہت کاٹتے ہیں”
رات بھر کون تھا ساتھ میرے
جسے میں بتاتا رہا
اس جگہ شہر تھا
اور سیٹی بجاتے ہوئے نوجواں
اس پہ اتری ہوئی رات سے
یوں گزرتے
کہ جیسے یہی ہو گزر گاہِ ہستی
اسی میں کہیں ہو
سراغِ تمنا۔۔۔۔
یہاں موڑ تھا
جس پہ بس ٹھیرتی
اور مسافر ، اندھیرے میں تحلیل ہوتے
تو ہم ،چاپ سن کر
انھیں زندگی سے گزرتے ہوئے دیکھتے
اپنی نیندوں کی چادر ہٹا کر

کہیں چاندنی میں نہاتے ہوئے
اُجلے تکیوں کے نیچے
کسی گیت کے بول تہ کر کے رکھتے
کہیں خواب کے راستوں میں بھٹکتے ہوئے
دن کی وادی میں پھر جا نکلتے
کہ آنکھیں تھیں
چاہت بھری ،نیم وا۔۔۔۔
چِق سے لگ کر ہمیں دیکھتیں
ہر طرف سے اُمڈتی ہوئی شام کی اوٹ سے
کوئی ہم سے یہ کہتا
کہاں پر بھٹکتے ہو
کیوں دربدر ہو
تو ہم اپنے ہاتھوں کا کیچڑ چھپائے ہوئے
گھر میں
پر چھائیوں کی طرح سے اترتے
کہیں اونچی نیچی ، اکھڑتی ادھڑتی ہوئی
شاہ راہوں پہ
کھائی ہوئی ٹھوکروں کے تسلسل میں
ہم نے پکارا بہت
ان سویروں کی مہکار کو
جن کی شبنم
ہمارے دلوں میں ہمیشہ سے گرتی رہی
پھل پھول بھی کھلے
خوشبوئیں بھی ملیں
اور تم بھی ملے۔۔۔۔
یہیں پر کہیں
اِک گزر گاہِ صد رنگ تھی
جس پہ چلتے ہوئے
اسکی دہلیز کو جا نکلتے
اسی شور میں تھا وہ ہوٹل
جہاں خامشی تھی
اُداسی تھی
سگرٹ کی ، چائے کی مہکار میں
دوستو وفسکیوں سے ملاقات ہوتی
یہ وارفتگی تھی کہ دیوانگی
گھومتے ہی رہے ہیں
بگولے کی صورت کہیں
رات دن کے علاقوں میں
کہ ہم ہوش میں بھی رہے
ٹھیک سوئے نہیں
پورے جاگے نہیں
اس قدر چل کے آئے
تو پیروں میں جوتے بہت کاٹتے ہیں
رات بھر کون تھا ساتھ میرے
وہ تم تو نہ تھے
وہ تم تو نہیں تھے
تو پھر کون تھا ساتھ میرے
جسے میں بتاتا رہا
اس جگہ شہر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مانوسیت وہ بلیغ اور مناسب ترین نام ہے جسے بلا شبہ ڈاکٹر ابرار کی نظم کی فضاء کے تعارف کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔
پھر بھلے وہ مانوسیت ،کائنات کے ہالے میں عدم سے لیکر وجود اور وجود سے جُڑے وجودی روح داروں کے لئے تسکین کا سامان ہو یا انسانی عمر کے جینے سے لیکر بیتے جانے جیسے سفلے عمل کی بھڑاس نکالتی رایگانی اور وقت کے کف اُڑاتے دہن سے نکلتے شب و روز سبھی کا منظر نامہ قاری کو اپنی ہی یادداشت کا flashback لگتا ہے۔
زیرِ بحث نظم "جوتے بہت کاٹتے ہیں” اسی مانوسیت بھرے تائثر کی تقویت کی نظیر ہے۔ "گزر گاہِ ہستی” پہ چلنے والے کا دُہرا المیہ،،، وہ پل جنکا ساتھ ہمیشہ رہ جانے کی تمنا ،حسرت میں بدل جائے،انھی بیتے پٙلوں سے اسکا جی بوجھل ہے جبکہ جاری سفر کی کُلفت کے اثر میں انھی لمحوں کی یادگار کے بوجھ سے اسکے پانو من من بھر کے ہو چکے ہیں۔
اس گم گشتہ شہرِ تمنا کی یاد چبھتی دل میں ہے مگر شکوہ جوتے کے کاٹنے کا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب ہست و بود کے ترازو میں وجود کے پلڑوں میں ایک طرف رایگانی تُلتی ہے تو دوسری طرف لاچارگی۔۔۔۔۔
نظم گو نے کچھ ایسا کمال کیا کہ قاری خود کو اسکی صلیب میں گڑا پاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  آئی ایم ملالہ پر اٹھائے گئے اعتراضات اور انکے جوابات

٢۔ "یہ کالک کیوں نہیں جاتی”
لباسِ زر پہن رکھا ہو
چادر ہو فقیری کی
بدن کو اوڑھ رکھا ہو
کہ دبکا ہو لحافوں میں
یہ کالک ،داغ ہے ماتھے کا
دل پر نقش ہے
اطراف سے اُمڈی ہوئی گالی ہے
گالی میں چُھپی تضحیک ہے
اِک خوف ہے
جو ہر گھڑی گردش میں رہتا ہے
نحوست ہے
کہیں سے کاٹ دے گی زندگی کا راستہ۔۔۔۔
لہو میں روک ہے
کیچڑ ہے
اُجلے دن کے ماتھے پر
تباہی ہے
کوئی بہتان ہے
چُبھتا ہوا اک جھوٹ ہے
بکواس ہے
نفرت کا دھارا ہے
اُچھلتا ہے، مچلتا ہے
کہ پہناوے پہ دھبّا ہے
بہت مٙل مٙل کے دھوتا ہوں
یہ کالک کیوں نہیں جاتی
بھلا لگتا ہے ہر ملبوس مجھ کو
چار سُو رنگوں کا ڈیرا ہے
کئی مہتاب ہیں
جو تیرتے ہیں میری راتوں میں
چمک ہے ظاہر و باطن میں
بہتی ہے لہو بن کر۔۔۔۔۔
مگر پھر بھی ۔۔۔۔
پر ایسا ہے
کوئی رنگِ مشّیت ہو
کہ نسلوں کی رعایت سے
عطا ہو ،زندگی کے جبر کی۔۔۔۔
اور خون کی نسبت سے ہو
مقسوم انساں کا
وہ کالک ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں جاتی
۔………………

"کالک” جیسے کم مایہ بلکہ بے توقیر لفظ سے جُڑی انسانی نفسیات ، اسکے حوالے سے عمل اور ردّ ِ عمل سے وابستہ محسوسات اور پھر آخر میں قضا و قدر کے فلسفے کا اک زاویہ جسے یاسیت اور واماندگی کے پرتو میں استفہامیہ اندازمیں یوں پیش کرنا کہ جو فکر اور شعور کو مہمیز کرتا ہو ،شاعر کے تخیل،تدبر اور مشاہدے کے بیان پر تجربے کی سطح تک گرفت کی خوبیوں کی بدولت اسکے کینوس کی وسعت کا مظہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
"موہوم کی مہک ” کا مطالعہ اس احساس سے دوچار کرتا ہے کہ "محض سطر آرائی” سے گریز کرتا یہ نظمانیہ ،تہ دار ضرور ہے مگر تٙسامُح سے یکسر پاک ہے اور یہ کہ اس مہک کی نظافت نظم کی دنیا کو سدا مہکاتی رہے گی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ماتم ایک عورت کا (ناول) – تبصرہ

دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »