Qalamkar Website Header Image

ہم ،سوشل میڈیا اور گدھے والی باتیں

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک عمر رسیدہ جوڑا اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہا کرتا تھا۔دونوں میاں بیوی کی امیدوں کا واحد مرکز ان کا یہی اکلوتا بیٹا تھا مگر وہ تھا پرلے درجے کا نکھٹو ۔ دونوں میاں بیوی کی ساری عمر کی محنت مزدوری کی کمائی کا حاصل دو گدھے تھے جنکی آمدن نے گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔
گذرتے دنوں کے ساتھ ساتھ میاں بیوی بوڑھے اور کمزور ہوتے جا رہے تھے اور آنے والے وقتوں کے لئے پریشان رہا کرتے تھے ۔ایک رات اسی موضوع پر بات کرتے کرتے گفتگو کا رخ مسئلے کی تلاش کی جانب مڑ گیا۔ بیوی نے شوہر سے کہا کہ اب نہ آپ محنت مزدوری کے قابل ہیں اور نہ ہی مجھ اکیلی سے گھر کا کام کاج سنبھلتا ہے تو کیوں نہ ہم اپنے بیٹے کا بیاہ کر دیں ۔آنے والی گھر کے کام کاج بھی سنبھالے گی اور ہو سکتا ہے کہ اس کی موجودگی اور ذمہ داریوں کا خیال بیٹے کو بھی سدھرنے کی ترغیب دے ۔
یہ بات بڑے میاں کے دل کو لگی اور کہنے لگے کہ نیک بخت ! بہت عمدہ خیال ہے۔بس اب تو اس نکھٹو کے لئے لڑکی دیکھنی شروع کر دے اور میں جلد ازجلد شادی کے انتظامات کرتا ہوں۔بیوی پہلے تو بہت خوش ہوئی مگر پھر مرجھائے ہوئے لہجے میں بولی کہ وہ سب تو ٹھیک ہے مگر شادی کا خرچہ کیسے نکالیں گے ؟ یہاں تو دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے۔ بڑے میاں بولے ، تو فکر نہ کر اس کا بھی حل ہے۔ ایک گدھا بیچ دیں گے اور اس پیسے سے شادی کر دیں گے ۔دونوں اس حل سے مطمئن ہو کر شادی کی تیاریوں کا حساب کتاب لگانے لگے۔
جس دوران ماں باپ یہ باتیں کر رہے تھے ،لڑکا جاگ رہا تھا مگر آنکھیں موندے چپکا پڑا ،اپنی شادی کی باتیں دلچسپی سے سن رہا تھا۔ اچانک بڑی بی نے شوہر کو ٹوکا اور کہنے لگی کہ یہ سب تو ٹھیک ! مگر گدھا بیچنے سے آمدن کا نقصان نہ ہو گا؟ اتنی مہنگائی میں گذارا کیسے ہو گا؟ بڑے میاں نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگے ؛”صحیح کہہ رہی ہے نیک بخت! مہنگائی نے تو کمر توڑ دی ہے۔ بڑا مسئلہ ہے۔
گفتگو نے سنجیدہ موڑ اختیار کر لیا اور بے چارے بڈھا بڈھی زندگی کے تلخ مسائل پر بات چیت کرنے لگے ۔اُدھر شادی کی خوشخبری اور اس سے جڑی باتوں نے اچانک گھمبیر رخ اختیار کر لیا تو جھوٹ موٹ سوتا بنا لڑکا جزبز ہونے لگا۔ جب کسی طور ماں باپ کو شادی کے موضوع پر دوبارہ آتے نہ دیکھا تو ایک آنکھ کھول کر کہنے لگا ؛”امّاں! ابّا! کیا باتیں کر رہے ہو؟ ماں باپ سمجھے کہ بیٹا ہماری باتوں سے پریشان ہے تو کہنے لگے ،اچھا !اچھا! ہم چپ ہوئے جاتے ہیں ،تو آرام سے سو جا۔ لڑکا شرما کر کہتا ہے ،”نہیں ،میں چپ ہونے کو نہیں کہہ رہا ،باتیں ضرور کرو مگر وہ گدھے والی باتیں کرو ناں !
تو احبابِ گرامی ! کچھ ہمارا حال بھی یہی ہے کہ جہاں قومی،سماجی ،معاشی اور اخلاقی حل کے لئے سنجیدہ کوششوں کی بات چھڑے ،ہم بد مزہ ہو جایاکرتے ہیں کیونکہ ہماری دلچسپی صرف گدھے والی ٹائپ کی باتوں میں ہی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »