"ایک issue سے ایک non issue کی طرف اٹھتے قدم اور بیچ بیچ میں کہیں دھماکے کی بازگشت، یہ ہے ہماری سماجی زندگی کا pattern ” کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے ؟ کرتے ہیں تو بات یہیں ختم سمجھئے اور اگر نہیں تو خدارا مجھے دلائل سے قائل کیجئےاور یقین جانئے کہ خود کو غلط ثابت ہوتا دیکھنا چاہتی ہوں
مگر افسوس صد افسوس کہ اس بیان کردہ حقیقت کو آپ کم از کم منطقی دلائل سے نہیں جھٹلا سکتے ،اس مباحثے میں سر خروئی کے لئے بے حسی سے چِھتا جگرا اور جہالت کے سریے سے تنی گردن ہی آپ کا مان رکھیں تو رکھیں۔۔۔۔ کوئی حد بھی ہوتی ہے یعنی تمغہء جہالت کیا کم تھا کہ دنیا بھر میں "سر بلند ” ہونے کو ذلالت کے کانٹوں بھرا تاج بھی سر پر سجا لیا۔
ایک کے بعد ایک ذلّت آمیز واقعہ۔۔۔۔ کہیں اپنے ہی مستقبل کی تابناک کرنوں کو اعلیٰ رسمی تعلیمی ادارے میں کچل کچل کر بے نور کرتے ہیں ،کہیں روایتی مدرسوں میں جُز دان میں لپٹے مقدّس صحیفوں کی موجودگی میں خدا کی تخلیق کردہ زندہ آیتوں کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔کہیں عّفت و عصمت کی پاکیزہ دمک کو سرِ بازار برہنگی کے نیزے پر چڑھا کر دلوں کے کالے اندھیرے سے لتھڑی بصارتوں کی تسکین کرتے ہیں ۔کہیں معصومیت کی دھنک کے تار تار اُدھیڑ کر اپنی وحشتوں کی دلبستگی کا سامان کرتے ہیں اور ستم در ستم یہ سب ماسک چڑھا کر نہیں ہوتا۔کسی نقاب کی آڑ میں شناخت چھپانے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی "دو کوڑی کی اوقات ” کا رونا نہیں رو سکتے تو چلیں موبائل سے بنی ویڈیوز کے جیتے جاگتے ثبوتوں کا ماتم ہی کر لیں۔اور یہیں کیوں رکنا؟ ذرا قاتل کی گرفت کی داستان بھی تو کہی جائے۔”قاتل کی گرفت” ؛ ہائے صدقے! ان نرم و نازک کلائیوں کے کہ جن کا لمس مجرم کو گُدگُدا کر اُسے پیار سے تھپک کر سہلا کر کہتا ہے ،”چل بس بہت ہو گئی ،جا اب کے تو معاف کر دیا پر اگلی بار گرفت میں نہ آنا ورنہ دیکھ تو ! ہمارا ذمہ نہیں ،ہاں!
اچھا وہ اربابِ اختیار کا ذکرِ خیر تو رہ ہی گیا۔ وہ بھی ہیں۔ زندہ ،سانس لیتے ،اسی زمین پر اکڑ کر چلتے پھرتے ۔۔۔ کبھی کبھی ہاتھ بھی آجاتے ہیں ،پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق کانفرنسوں میں مذمتی بیان جھاڑ کر دکھاوے کو ہی سہی زہر کے گھونٹ بھی issue کے سائز کے مطابق پی لیتے ہیں ۔ان ناحق مجبوروں کو تہمتِ مختاری کی سزا کے طور پر چند تقریریں ،جذباتی جملے اور مذمتی بیان ہمہ وقت میسر ہوتے ہیں۔تاریخ و واقعات سے چھیڑ چھاڑ (اتنی نہیں کہ جتنی صدیوں سے ہوتی آئی ہے ،بس ذرا سی) اور پھر معاملہ کسی کمیٹی کی نذر ۔۔۔ یہ ارباب ِ اختیار اور انکی بنائی گئی کمیٹیاں بھی محلّے کی کمیٹی والی فراڈ آنٹیوں کی طرح ہی ہوتی ہیں جو سب کا مال ڈکار کر رفو چکر ہو جاتی ہیں ۔ان پر عوام کا زور بھی بس اتنا ہی چلتا ہے جتنا کمیٹی والی آنٹیوں پر یعنی متاثرین نے بس جھولیاں پھیلا کر بد دعا دے دی اور رہ رہ کر یاد آنے پر کِلس کر کوس لیا ۔بس یوں سمجھئے کہ اپنی اپنی تال سے سُر ملا کر کوسنا ہی ہمارا قومی بیانیہ ہے اور پھر ظاہر ہے کہ high pitch کے اس شور و غوغا میں ستم زدوں کی سسکیاں تو دب ہی جاتی ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn