الیپو یا حلب ملک شام کا سب سے بڑا اور عہدِ خلافت کا تیسرا بڑا شہر۔۔۔ پورے خطے میں تاریخی، جغرافیائی اور سٹریڑیجک اعتبار سے بے پناہ اہمیت کا حامل یہ خوبصورت شہر ۲۰۱۲ سے مسلسل تباہی سے دوچار ہے۔
یہاں میں ایک بات کا ذکر کرتی چلوں کہ حلب میں جاری لڑائی کی بنیادی وجوہات یا سیاق و سباق میرا آج کا موضوع بالکل نہیں ہے۔
اس خونریز لڑائی میں آج دن تک کتنے معصوم لوگ بشمول بزرگ، عورتیں اور بچے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے یہ ایک الگ داستان ہے۔ زخمیوں بالخصوص زخمی بچوں کی دل چیر دینے والی تصاویر جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں انہیں دیکھ کے دل کٹ کہ رہ جاتا ہے۔ انسانیت کے اتنے ارزاں ہونے پر خود اپنے آپ سے شرمندگی ہونے لگتی ہے مگر میرا آج کا موضوع یہ کربناک المیہ بھی نہیں ہے۔۔۔
صاحبو عین ممکن ہے کہ آپ کو میری ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگے جو کہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ بہرکیف میرا آج کا موضوع ’’ہم‘‘ ہیں۔
بچپن سے لے کر آج تک راقم الحروف نے ’’ہمیں‘‘ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دکھوں پر بلاشبہ خون کے آنسو روتے دیکھا۔ فلسطین، کشمیر،عراق، چیچنیا، بوسنیا،افغانستان،روہنگیا اور اب حلب۔
سوشل میڈیا پر’’سیو الیپو‘‘ کو اپنی پروفائل فوٹو بنانے والوں سے بصد احترام معذرت کے ساتھ، مجھ ناچیز کے نزدیک ہمارا بحیثیت مسلمان بنیادی المیہ یہ ہے کہ ’’ہم‘‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر تو نوحہ کُناں ہیں مگر اپنے
ملک میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اس کے بارے میں سوچنے کا تردد بھی نہیں کرتے۔ بقول میرؔ
نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی۔۔۔
ہمیں آج الیپو کی تمام مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جو اپنے باپ، بھائی سے فریاد کر رہی ہیں کہ انھیں مار دیں اس سے قبل کہ وہ حاوی افواج کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائیں، ان سب کے کرب کا اندازہ ہے مگر ہمیں کبھی ’’امتِ رحمۃ للعالمینﷺ‘‘ سے رحم کی بھیک مانگتی آسیہ بی بی نظر نہیں آتی بلکہ ہم تو اس سے ہمدردی کا بیان جاری کرنے والوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے سے نہیں چُوکتے اور بعد میں سینہ ٹھونک کر اس بھیانک فعل پر فخر کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ھیں کہ قرآن ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تشبیہ دیتا ہے کہ:
’’جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا ‘‘
واضح رہے کہ یہاں مقتول کے انسان ہونے کو اہمیت دی گئی نا کہ دین کو۔
نہ ہی ہمیں وہ اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دیا گیا عیسائی جوڑا یاد رہتا ہے جو نجانے ’’ناموسِ رسالت‘‘ کی آڑ تلے کس کے انتقام کی بھینٹ چڑھا۔ فرانس میں حجاب پر پابندی لگے تو غیرتِ مسلمانی سے مغلوب ہو کر ہمارا خون کھول اٹھتا ہے مگر یہ ہم بھول جاتے ہیں کہ پشاور میں کیسے چرچ جلا کر اقلیتوں کو انکا مذہبی تہوار منانے سے روکا تھا۔ ہزارہ میں سو سے زائد لاشوں پر فرقوں کی سیاست کیسے کی تھی۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو ہم آج تک اپنا قومی ہیرو ماننے سے خائف ہیں کہ ایک لادین اس مملکتِ خدادا کا قومی ہیرو کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔یقیناَ یہ یہود و نصاریٰ کی کوئی سازش ہو گی.
ستم تو یہ ہے کہ ساٹھ ہزار لاشے گرا کر بھی طالبان ہمارے اپنے ناراض بھائی رہے اور ملالہ نوبل انعام لے کر بھی اغیار کی سازش ٹھری۔ تاں آںکہ ہمارے ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچوں نے آرمی پبلک سکول میں اپنی انمول جانوں کا نذرانہ نہیں دیا تب تک ہم عذر ہی تلاشتے رہے۔
ڈاکٹر علی رضا ، ایڈووکیٹ رحمان، سبین محمود اور نجانے کتنے ایسے نام جو بلاشبہ ہمارے لئے باعثِ وقار تھے اور اس ملک کی بے لوث خدمت کر رہے تھے
مگر کہیں نا کہیں، کسی نہ کسی مذہبی یا نظریاتی اختلاف کی نظر ہوئے۔ پر صاحبو، ہمارا دل اپنے ملک میں بہتے پرائے مذہب یا پرائے فرقے کے خون پر ذرا کم ہی خون کے آنسو روتا ہے۔ ۱۲ربیع الاول کا مبارک موقع چن کر ہم نے اسلام پر ایک احسان اور کیا اور احمدیوں کی عبادت گاہ جلا ڈالی۔ وہ رحمۃ للعالمینﷺ جو اُن پر غلاظت پھینکنے والی کی عیادت کیا کرتے تھے اور ہم اُنﷺ کے امتی۔۔۔۔۔۔ پر چلو کوئی نہیں ہم نے تو ایک لادین فرقے کو سبق سکھایا ہے مگر بخدا کسی اور مذہب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ھماری مسجد شہید کر کے وہاں اپنا مندر تعمیر کرے۔ ہم مغرب کا مسلمانوں سے متعصبانہ روئیہ دنیا کے سامنے لانے کی فکر میں ہلکان ہوئے رہتے ہیں مگر جو روئیہ ہم اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں اس کو کیا نام دیں؟؟؟
کچھ دن پہلے ایک سطر نے دل کو جھنجھوڑا کہ:
’’قائدِاعظم نے یہ ملک طبقاتی جبر سے لڑ کر حاصل کیا تھا پر جو کچھ آج ہم اس ملک میں ہوتا دیکھ رہے ہیں وہ طبقاتی یا مذہبی جبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn