فیض احمد فیض، جن ہستیوں کو ہوش سنبھالنے کی عمر سے ہی ایک اونچے سنگھاسن پر بٹھا رکھا ہو ان کے لئے کبھی کچھ بولنا یا لکھنا پڑے تو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ الفاظ گویا گم ہو جاتے ہیں اور زبان ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ فیض کو جاننے کی ابتداء محض ایک شاعر کی حیثیت سے تھی مگر جوں جوں اوپری منزل کے خانے کھلتے گئے، آگہی کے در وا ہوتے گئے تو یہ اندازہ ہوا کہ ایسی قد آور شخصیت کو محض ایک شاعر کہنا دنیائے ادب سے ایک ایسی زیادتی ہو گی جس کی معافی شاید ممکن نہ ہو۔ فیض انجمنِ ترقی پسند مصنفینِ ہند کے اہم رکن بھی تھے۔ ایک اور اہم حوالہ بلاشبہ ایک مارکسسٹ کا ہے لہذا اکنامکس کی ایک نالائق طالبِعلم ہونے کے ناطے پیروی کے تابوت کی آخری کیل بھی۔
فیض احمد فیض کی شخصیت کے بارے میں خود اپنی رائے دینے کی جسارت کرنے کی بجائے میں اردو ادب کے چند قدآور شخصیات کی فیض صاحب کے بارے میں نگارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی ۔
محترم حمید اختر کا نام ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے ایک مضمون کا اقتباس پیشِ خدمت ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
فیض بہت بڑے شاعر ہیں۔ انہوں نے ایک پوری نسل کے شعراء کو متاثر کیا ہے اور جدید اردو شاعری کو نیا اسلوب دیا ہے لیکن فیض بحیثیت انسان اس شاعر سے بہت بڑے ہیں۔ کوئی بھی شاعر اچھا انسان ہوئے بغیر اچھا فنکار نہیں ہو سکتا اور فیض کو پرکھنے کے لئے یہی سب سے بڑی کسوٹی ہے۔ فیض نے جب بھی ذاتی یا کائناتی دکھوں کا ماتم کیا ہے، تصویر کا روشن پہلو بھی سامنے رکھا ہے۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ فیض میں محسوس کرنے اور درد سہنے کا بے پناہ جذبہ موجود ہونے کہ باوجود ان کی شاعری اور عام زندگی کی بات چیت میں رجائیت کا بہت گہرا دخل ہے۔ دراصل یہ موجودہ دور اور فیض کے اپنے شعور کا نتیجہ ہے کہ جہاں انھوں نے روایتی خیالات اور ترقی پسند شاعری کا خوبصورت سنگم تعمیر کیا ہے وہاں وہ روحانی کرب کی انتہا پر پہنچنے کے باوجود ایک عملی آدمی ہیں اور زندگی اور مستقبل کی بہتری پر یقین رکھتے ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ یہ مضمون فیض کی زندگی میں ہی لکھا گیا تھا ورنہ ہماری عمومی روایت ہے کہ تعریف کے لئے مذکورہ شخص کا مردہ قرار پانا بےحد ضروری ہے اور مرنے کے بعد تو مجھ جیسے طفلِ مکتب بھی ٹریبیوٹ دے دیا کرتے ہیں۔
مختصراَ یہ کہ فیض احمد فیض نے نہ صرف اپنی صورت میں برِصغیر کو ایک ترقی پسند، بغاوت پہ آمادہ اور مثبت سوچ رکھنے والا شاعر دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وطن اور مٹی سے محبت کا درس بھی دیا۔ شیخ صاحب کے وعظ سے باقاعدہ بیزار نظر آتے ہوئے انسانیت کا سبق پڑھایا۔
آگے بڑھتے ہیں ایک اور ہم عصر کی جانب۔۔۔ قرۃ العین حیدر کہتی ہیں کہ:
فیض اقبال کے بہت بڑے معتقد تھے مگرپائندہ اقبال کے۔ اس اقبال کے نہیں جسے قلم فروشوں، بوگس ناقدوں اور خود ساختہ نظریہ پسندوں نے ایک قدیم ڈھانچے میں تبدیل کر دیا ہے۔ انکا خیال ہے کہ اسلام اور دوسرے بنیادی سوالات پر علامہ کے اصل نطریات ان کی انگریزی تصانیف میں ہیں تاکہ وہ رجعت پسندوں کی دسترس سے باہر رہیں۔
حساسیت اور محبت جیسے انمول جذبوں میں گندھا ہوا یہ شخص اپنے خونی رشتوں کے لئے بھی ایک رول ماڈل سے کم نہ تھا۔ فیض کی بڑی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی والد کے لئے اپنے خیالات کا کچھ یوں اظہار کرتی ہیں کہ:
ابّا گھر میں عموماَ خاموش پائے جاتے تھے مگر یہ خاموشی کبھی ھمارے مضبوط تعلق میں دراڑ نہیں ڈال سکی۔ میرے لئے وہ ہمیشہ ابّا کم اور دوست زیادہ تھے۔ کمزور کی آواز بننا ہم نے ابّا سے سیکھا۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ ابّا کو اپنے بارے میں بولنا بالکل پسند نہ تھا البتہ تصویر بڑے شوق سے کھنچوایا کرتے تھے۔
دوسری صاحبزادی منیزہ ہاشمی اپنے خیالات کا کچھ یوں اظہار کرتی ہیں کہ:
مجھے یہ بات قبول کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مجھے ابّا کی شاعری ابّا کی زندگی میں کبھی سمجھ نہیں آئی ہاں ان کے بعد میں نے انکی شاعری سے تعلق استوار کیا اور جب میں نے سمجھنا شروع کیا تو مجھے ان کی شاعری آج کی شاعری لگیٴ۔ ابّا نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو ہمیشہ امید کا پیغام دیا۔
اپنی شاعری سے دنیائے ادب میں تلاطم برپا کر دینے اور بظاہر صممً بکممً نظر آنے والا بلکہ یوں کہیے کہ بڑی سے بڑی بات کو کوئی بات نہیں کہہ کر ٹال جانے والا یہ لینن امن ایوارڈ یافتہ شاعر جسے چار مرتبہ ادب کے نوبل انعام کے لئے چُنا گیا، اپنی تصنیفات کی شکل میں ہمارے لئے علم کا ایک ایسا دیّا بلکہ عہدِ حاضر کے لئے ایسی ایل ای ڈی لائٹ روشن کر گیا جو رہتی دنیا تک ہم جیسے طالبِ علموں کو مستفید کرنے کے لئے روشن رہے گی۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn