Qalamkar Website Header Image

عید

اگست 13 اور سال 1947ء کا تھا ۔رات کے گیارہ بج رہے تھے جب فاضل کا بنگلہ تحصیل فیروز پر سے ایک قافلہ پیدل ریاست بہاول پور کی ایک چھوٹی سی جگہ منڈی صادق گنج اسٹیشن پر آ کر ٹھہر گیا۔اس قافلے میں فقط تین لوگ تھے ۔ایک آدمی جس کی عمر کوئی چالیس سال ہوگی ۔جبکہ دوسری ایک عورت تھی جو اتنی ہی عمر کی تھی ۔اس کے ساتھ ایک تین یا چار سال کی بچی تھی ۔تین افراد کے اس قافلے میں عورت کے سر پر نہ چادر تھی اور نہ ہی اس کے ہاتھوں ،پیروں،ناک،کان میں کوئی زیور تھا۔تینوں افراد کے پیر میں جوتی بھی نہ تھی۔جبکہ گرد سے اٹے ہوئے جسم تھے۔یاس اور غم و اندوہ ان کے چہرے پر نقش ہو کر رہ گیا تھا۔شکل سے دونوں مرد عورت پڑھے لکھے معلوم ہوتے تھے۔یہ وہ علاقہ تھا جو ان کے مسکن سے بہت دور تھا۔انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ حوادث زمانہ ایک دن ان کو یہاں لا کر پھینک دیں گے۔یہ لوگ ضلع حصار سے پیدل چلے تھے تو ان کی تعداد سات تھی ۔ایک شیر خوار بچی گود میں تھی ۔جو پیاس سے فیروز پور سے کچھ پہلے ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ایک جوان رعنا تھا جو ان کی ڈھال بن کر چلا تھا ۔لیکن حصار سے نکلتے ہی کہیں سے ایک جتھا حملہ اور ہوا تو اپنے خاندان کو بچانے کے لئے وہ بلوائیوں کو روکنے کی کوشش میں اپنی جان ہار گیا۔ایک نوجوان لڑکی تھی معصومہ وہ ناجانے کب سے زہر کی پڑیا سنبھالے بیٹھی ہوگی ۔بھائی کے مرنے پر یک دم اس کو پھانک گئی اور یہ میاں، بیوی دیکھتے رہ گئے۔دیور اور نند کو کفن تک نہ مل سکا اور شیر خوار بچی کو ایک جنگلے میں ویرانے میں دفنا کر جان بچانے کو آگے کی طرف چل نکلے۔دو دن کے بھوکے پیسے نڈھال ریل وے اسٹیشن پر دھڑام سےبنچ پر ایسے گرے جیسے کوئی چکر آنے پر گرتا ہو۔یہ رمضان کی ٢٧ ویں شب تھی۔اگست کا مہینہ تھا ۔ٹھیک ایک گھنٹے بعد 14 تاریخ ہونے والی تھی۔ایک دن پہلے حصار کالج میں تو اس قافلے کے واحد بچے مرد نے ریڈیو پر جناح اور نہرو کی تقریر سنی تھی ۔جس میں دو ملکوں کے قیام کا اعلان ہوا تھا۔ایک خواب تھا جو دونوں رہنماؤں نے لوگوں کو دیکھایا تھا۔یہ وہ خواب تھا جس پر اسے تو بالکل یقین نہیں آیا تھا۔کیونکہ اس نے دیکھا تھا مذھب کے نام پر تقسیم کبھی بھی اچھے نتائج لے کر نہیں آ سکتی تھی۔جب جون میں تقسیم کے پلان کا پتا چلا تو نواکھلی بنگال میں زبردست ہندو ،مسلم فساد ہوا تھا۔اس کے بعد بہار میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔سارا ہندوستان مہا سبھاییوں اور مسلم انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا تھا۔آج اس اسٹیشن پر تباہ حال بیٹھے دونوں میاں ،بیوی سوچ رہے تھے کیسے پیارے خواب تھے جو انھوں نے نے اپنے کالج کے دنوں میں دیکھے تھے۔ کیسے سبط حسن نے شیعہ مدرسہ میں مولوی بنانے سے انکار کرتے ہوئے لکھنو کے انگریزی اسکول میں داخلہ لے لیا تھا تو اعظم گڑھ میں ان کی حویلی میں ایک زلزلہ آگیا تھا۔گویا مولوی نقی علی نقوی کی اولاد کرسٹان ہونے لگی تھی۔سبط حسن کی دادی انگریزوں کے ٹینکوں میں کیڑے پڑنے کی دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ انگلستان کی نگوڑی ملکہ کی موت کی دعا بھی مانگنے لگی تھیں۔اصل میں ہوا یہ تھا کہ ایک دن سبط حسن کے ایک چچا حشمت علی اعظم گڑھ آئے تو سارے شہر میں چرچا ہو گیا کہ کرسٹان سید آ گیا ہے۔گھر میں چچا حشمت علی کا نام لینا جرم تھا۔یہ تو ان کی بی بی فاطمہ حشمت تھیں جو ایک اجنبی کی طرح حویلی کے اسب سے آخری اور تنگ و تاریک کمرے میں رہتی تھیں جہاں چراغ ہمیشہ یا تو شب عاشور جلتا دیکھا یا جب سیدہ کائنات کا یوم وفات آتا تو روشنی ہوتی تھی۔حشمت بی بی سبط کو دادی کی کہانیوں میں موجود وہ شہزادی لگتی تھیں جس پر سات سمندر پار کا کوئی شہزادہ فریفتہ ہو جاتا اور شہزادی بھی اس کو دل دے بیٹھتی تھی۔پھر وہ شہزادہ بارات کے ساتھ آنے کا وعدہ کر کے جاتا اور نہ لوٹتا ۔شہزادی حسن سوگوار کے ساتھ شہزادہ کا انتظار کرتی رہتی۔حشمت چچا کے بارے میں ایک شب عاشور کی رات شام غریباں کی رات جب اس حویلی میں حزن اور ماتم کی فضا رچی بسی ہوتی تھی۔حویلی میں بیبیاں بال کھولے،سیاہ کپڑے پہنے ،کسی آرایش و زیبایش کے بنا اہل بیت پر کربلا میں ہوئے ظلم کا سوگ اور غم منا رہی تھیں تو فاطمہ چچی اپنے کمرے میں اکیلی ماتم گساری اور غم اہل بیت منانے میں مصروف تھیں۔سبط حسن کی آواز میں بہت سوز تھا ۔اسے بیبیاں کہنے لگی کہ حسین کا نوحہ پڑھے ۔لیکن نجانے وہ کیوں سب کو چھوڑ اور فاطمہ چچی کے کمرے میں چلا آیا تھا۔اس روز چچی فاطمہ کی سوگواریت کچھ زیادہ ہی لگ رہی تھی۔سبط حسن نے چچی کو بی بی فاطمہ کی قسم دی اور کہا کہ اس کو چچا حشمت کے بارے میں بتائیں ، کیا وہ کرسٹان ہو گئے ہیں؟ چچی اس دن پھٹ پڑیں اور انھوں نے بتایا کہ اس کے دادا نقی علی نے کیسے مولوی ذاکر حسین کے کہنے پر سارے خاندان پر انگریزی کی تعلیم حرام قررار دے دی تھی۔اور حشمت علی کیسے علی گڑھ کالج چلے گئے تھے۔حشمت اور فاطمہ کا نکاح پچپن میں ہی ہو گیا تھا۔اور اس نے پچپن ،لڑکپن سب حویلی میں گزارا تھا۔وہ سبط حسن کی خالہ کی بیٹی تھیں۔اور بچپن میں یتیم ہو گئیں تھیں۔ دادا نقی علی خان فاطمہ کو گھر لے آئے تھے۔بعد ازاں اس کا نکاح سبط حسن سے کر دیا گیا۔حشمت چچا کے انگریزی پڑھنے کے فیصلے کا نزلہ فاطمہ پر بھی گرا تھا۔اسے اچھوت جان کر بھرے پرے گھر میں الگ تھلگ رہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔وہ منحوس خیال کی جاتی تھی۔کسی کی شادی پر اس کو لیجانا جرم خیال کر لیا گیا تھا۔اب جو چچا ایک دن حویلی چلے آئے تو پینٹ شرٹ میں سرخ و سپید چچا حشمت سبط حسن کو بہت اچھے لگے۔چچا حویلی میں آئے تو وہ کسی سے خوفزدہ نہیں تھے۔سب ان سے بات کرتے ڈرتے تھے لیکن چچا بے دھڑک سب سے باتیں کر رہے تھے۔فاطمہ چچی بہت کھلی کھلی نظر آتی تھیں۔ان کے چہرے پر خوشیوں کے گلاب کھلے تھے۔رات کو چچا چھت پر چارپائی ڈال کر بیٹھ گئے تو سبط حسن بھی وہاں چلا آیا۔چچا نے سبط سے پوچھا کے کیا کر رہے ہو ؟چچا ضرب ،ضربا،ضربوا کی گردان رہتا رہا ہوں۔چچا سن کر ہنسنے لگے۔کہنے لگے تمہیں معلوم ہے ؟زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ۔اور ایک ہم ہیں کہ پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔انھوں نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکالی اور سبط حسن کو دی ۔”انگارے "نام تھا اس کتاب کا۔سبط حسن نے چراغ کی مدھم سی لو میں اس کتاب کو پڑھا ۔ساری رات بیت گئی۔پہلی مرتبہ سبط حسن کی تہجد قضا ہو گئی۔کتاب کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ چچا واپس تنہا نہیں گئے۔فاطمہ اور سبط حسن کو بھی ساتھ لے گئے۔سبط حسن نے دہلی اسکول میں داخلہ لے لیا۔حشمت چچا کا گھر دہلی میں ادیبوں،سیاسی کارکنوں،شاعروں کا مسکن تھا۔یہیں سبط حسن نے پہلی مرتبہ عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کو دیکھا تھا۔جن کے بارے میں مولوی ذاکر حسین نے ایک مرتبہ اپنے شاگردوں کو بتاتے ہوئے کہا تھا کے قیامت کی ایک نشانی منٹوو عصمت نامی مرد و عورت کا ظہور بھی تھا۔اب یہ پورا ہو چکا اور قیامت قریب ہے۔سبط حسن بہت حیران ہوا تھا کہ وہ آخر کیسے مرد و عورت ہوں گے جن کی وجہ سے قیامت قریب آ گئی ۔سبط حسن کا خیال تھا کہ کوئی بہت مکروہ چہرہ ہوگا ان کا۔اور ان کی تحریوں میں ایسا کیا` `ہوگا کہ ان کو فتنہ کی نشانیوں میں سے ایک سمجھ لیا گیا۔حشمت چچا کے ہاں عصمت آپا جب آئیں تو سبط حسن ایک نرم گفتار اور محبت سے بھری شفقت سے پیش آنے والی عورت سے ملا ۔اس کو اس میں اپنی ماں کا عکس نظر آیا۔سچی بات یہ سبط حسن کو بہت سالوں بعد عصمت کی کہانیوں کی سمجھ آئی تھی۔” ایک قطرہ خون” سبط حسن نے اپنی دادی کو ان کے آخری دنوں میں سنائی تھی تو دادی نے کہانی لکھنے والی کو جنت کی بشرط دی تھی۔اس کو حسین کی پکی کنیز قرار دیا تھا۔سبط حسن جھینپ گیا تھا۔وہ کیسے بتاتا کہ دادی یہ ووہی عصمت ہے جس کو تم کافرہ اعظم قرار دیتے نہیں تھکتیں۔سعادت کو جب سبط حسن نے دیکھا تو دبلے پتلے منٹو ان کو مولوی ذاکر کے کھینچے ہوئے نقشے سے بالکل مختلف نظر آئے۔حشمت چچا نے سبط حسن کو بتایا تھا کہ کیسے دادا نقی نے "بو”افسانہ پڑھتے دیکھ کر ان کو بےتحاشا مارا تھا۔مولوی فطرت حسین نے حشمت چچا کے بارے میں دادا نقی کو خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان پر کوئی اہل بیت کے دشمن جن نے قبضہ جما لیا ہے۔ان کا علاج بہت ضروری ہے۔اس سے پہلے حشمت چچا کا علاج ہوتا وہ گھر سے بھاگ لئے تھے۔سبط حسن کالج گئے تو وہاں ان کا تعارف ایسے سیاسی کارکنوں سے ہوا جو آزادی کے باب میں نہ تو کانگریس سے اتفاق کرتے تھے اور نہ ہی مسلم لیگ سے۔ان کی نگاہ میں یہ دونو جماعتیں صرف اقتدار ہندوستان کے جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور ان کے مدد گار ملاؤں کے لئے حاصل کرنا چاہتیں تھیں۔ہندوستان کی اصل آزادی تب ممکن تھی جب ہندوستان کے محنت کش طبقات مل کر نا صرف انگریز سامراج کا تختہ الٹ دیتے ۔بلکہ ہندوستان کے رجعت پسندطبقات سے بھی نجات حاصل کرے گا۔سبط حسن کو یہ فلسفہ بہت اچھا لگا۔اور اس نے کالج میں اس گروہ میں شمولیت اختیار کر لی جو خود کو کیمونسٹ کہتا تھا۔یہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ سبط حسن ہندوستان کی آزادی کے لئے کام کرنے لگے –لیکن ان کو اوپن کام کرنے کی آزادی نہ تھی۔یہ تو دوسری جنگ عظیم کے وقت جب جرمنی نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا ۔تو کیمونسٹوں نے جنگ کو عوامی جنگ قرار دے دیا۔سبط حسن کو بڑا عجیب لگتا تھا جب صرف رات پہلے کیمونسٹ انگریز سامراج کے خلاف لڑ رہے تھے اور اگلی صبح وہ انگریزی فوج میں بھرتی ہو رہے تھے۔سبط حسن اس صورت حال کو قبول نہ کر سکا وہ انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کرتا رہا۔سبط حسن نے سوچا بھی نہ تھا کے ہندوستان کی آزادی کی جنگ کا اختتام اس طرح خونیں انداز میں ہو گا۔وہ بطور لیکچرار انگریزی گورنمنٹ میں بھرتی ہوگیا اور اس کی پہلی پوسٹنگ حصار کالج میں ہوئی۔سبط حسن کو دہلی ہی میں توثیق النسا سے محبت ہو گئی تھی۔وہ بھی اعظم گڑھ کی تھی ۔ایک باغی جس نے پردہ ترک کیا اور اپنا جہاں بنانےنکل پڑی تھی۔پھر انجمن ترقی پسند تحریک کے ایک اجلاس میں سبط کی ان سے ملاقات ہوئی۔دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔شادی کر لی دونوں نے۔حصار آکر ایک سرکاری کوارٹر میں رہ رہے تھے۔یہ 46ء کا سال تھا جب وہ یہاں آئے تھے ۔ابھی سال ہی ہوا تھا کہ قیامت ٹوٹ پڑی۔لہو لہو آزادی سے ایک دن پہلے حصار شہر ہو گیا تھا۔سبط حسن کے پاس اس کا چھوٹا بھائی بھی آکر رہنے لگا تھا۔اور ایک چھوٹی بہن بھی ملنے آئی ہوئی تھی۔سب کٹ گئے۔ایک بچی کے ساتھ وہ میاں بیوی منڈی صادق گنج کے اسٹیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔سوچتے تھے کہاں جائیں۔اتنے میں ایک گاڑی اسٹیشن پہ آکر رکی – انہوں نے اس گاڑی کے کے گارڈ سے پوچھا کہ یہ کہاں جائے گی – اس نے بتایا کہ کراچی اس کا آخری سٹاپ ہے۔دونوں میاں بیوی اپنی بچی کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے۔گاڑی سست رفتاری سے آگے چلتی گئی ۔29 رمضان کو کراچی پہنچ گئے اور اسی رات عید کا چاند نظر آگیا۔اور صبح عید کے دن دونوں میاں بیوی ایک گھر میں بیٹھے اپنے پیاروں کو یاد کرکے روتے جاتے تھے۔اور پھر یوں ہوا کہ ان کی زندگی میں جو بھی عید کا دن اس دن دونوں میاں بیوی گھر میں بند ہوجاتے اور ان کلیجہ کباب بنا ہوتا تھا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »