Qalamkar Website Header Image

ایٹمی ملک میں تعلیمی صورتحال

Education-Financing-project-41خواندگی کسی بھی ملک کی معاشی اورمعاشرتی ترقی کی علامت ہے۔دنیا میں وہی ملک سرداری کر رہے ہیں جن کی شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے۔ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی بے مثال ترقی یافتہ ہیں.
ترقی پزیر ممالک میں شامل پاکستان کی شرح خواندگی انتہائی کم ہے ترقی پذیر کی فہرست میں شامل ویتنام کی شرح خواندگی %90.4، ایران کی %82.4، انڈیاکی %61، جبکہ پاکستان کی شرح خواندگی صرف %55 ہےـ
ہماری شرح خواندگی تو بنگلہ دیش سے بھی پست ہے جس کی شرح %61.5ہے. ہمارے ملک میں %26 لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں 52 ملین وہ ہیں جنکی عمریں 5سال سے 16 سال کی درمیان ہیں جو سکول نہیں جاتے اور ان میں لڑکیوں کی شرح 25 ملین ہے.
پاکستان کاآئین1952 کا ہو یا 1962 کا،یا پھر 1973 کا جو اب تک نافذ العمل ہے جس کی دفعہ 25Aکے تحت تمام بچوں کو پرائمری تعلیم فری اور لازمی مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہےـ یہ تعلیمی اصلاحات ہمارے آئین کا حصّہ ہیں۔
قیام پاکستان سے ہی نظام تعلیم کا موضوع زیر بحث ہے۔ان اڑسٹھ سالوں میں تعلیمی صورت حال بہتری کی طرف جانےکی بجائے بے حسی اور ابتری کا شکار ہے۔اور یہ بےحسی1947 سے ابتک کسی جمودکی طرح ہماری زندگیوں پر طاری ہے ۔مختلف ادوار میں بننے والی حکومتوں نے بھی اس جمود کو توڑنے کی سعی لا حاصل کی جن میں سر فہرست ذوالفقارعلی بھٹو ہیں جنہوں نےبرسر قتدارآ کر جہاں تمام صنعتوں کو قومیا لیا وہاں تعلیم میں اصلاحات کر کے تمام نجی تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا سوائے چند ایک کے.
دو درجن کے قریب چند بڑےنجی ادارے قومی تحویل میں نہیں لیےگیے
43% بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے رجسٹریشن کی گئ7ملین بچے پھر بھی تعلیمی اداروں میں نہ جا سکے۔
جنرل ضیاالحق نے اپنی حکومت کے 11سالوں یعنی 1988سے1977 تک اسلامائزیشن کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔
بینظر بھٹو اور نواز شریف کے مختلف ادوار حکومت میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی۔اور مشرف دور میں بھی تعلیمی معاملات جوں کے توں ہی رہے۔
الغرض ھم اڑسٹھ سالوں سے یہ فیصلہ ہی نہیں کرپا رہے کہ ہمارا ایجوکیشن میڈیم کیا ہوگا پاکستان میں اس وقت تین طرح کے نظام تعلیم میں چل رہے ہیں۔ان میں سب سے پہلے اگر کیمبرج سسٹم کی بات کی جائے توامریکن طرز پر مبنی یہ نظام تعلیم جس میں اشرافیہ اور بااثر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔اس تعلیم کے پروردہ مزید اعلی تعلیم کے لیے باہر جاتے ہیں اور جب باہر سے ڈگریاں لے کےآتے ہیں تو یہاں روزگار کے بہترین مواقع انکے منتظر ہوتے ہیں.ملک کی بڑی کمپنیز بھی یورپ اور امریکا سے تعلیم یافتہ امیدواروں کو پاکستان سے سند یافتہ امیدواروں پر ترجیح دیتی ہیں ۔اس نظام کے مشہور ادارے بیکن ہاؤس ،ایجوکیٹراورکیتھیڈرل ہیں۔غریب لوگ یہاں کے اخراجات برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے ان سکولوں میں اپنے بچوں کو داخل نہیں کروا سکتے.
دوسرے نمبر پر پاکستان کا سکینڈری ایجوکیشن سسٹم ہے یہ تعلیمی نظام گورنمنٹ
اور پرائیویٹ سکولزپر مبنی ہے۔متوسط طبقے کے طالب علمو ں کے لیے یہ سکولز آدھی انگلش اور آدھی اردو میں تعلیم دیتے ہیں۔اگر والدین بہترین کالج کی فیس دینے کے متحمل ہوں تو یہ اپنی ترجیح کے کالج میں بآسانی داخلہ بھی لے لیتے ہیں۔
پرائیویٹ ادارے تعلیم کو ایک کاروبار کے طور پر لیتے ہیں۔انکا مقصد صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ گلی محلوں میں کھلنےوالےسکولز اصل میں علم کا بیوپار ہیں جن کے مالک اس معاشرے کی دکھتی رگ اپنے ہاتھ میں دبائے بیٹھےہیں اور فیس کے ساتھ ساتھ فنڈز بٹورنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔متوسط طبقہ انکاجبر سہنے پر مجبور ہے۔انکا مقصدچونکہ پیسہ کماناہے لہذا یہاں اچھی اور معیاری تعلیم کافقدان ہے۔ غیر تربیت یافتہ اساتذہ کو کم تنخواه پر مقرر کیا جاتا ہے اور جوزیادہ تعلیم یافتہ ہیں ان میں خصوصاً خواتین کی تنخواہ زیادہ نہیں اسی بناپر وہ بددل ہو کر عدم دلچسبی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنے فرائض سے کنی کتراتے ہیں۔
گورنمنٹ اداروں میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہوتے ہیں۔یہ اردو میڈیم ہوتےہیں، جو گلوبلائزیشن کے اس دور میں قابل قبول اور اتنی اہمیت کی حامل نہیں سمجھی جاتی ہے کیونکہ زبان وہی قابل قبول ہو گی جو تمام دنیا میں بولی اور سمجھی جائے اور بین الاقوامی تقاضے پورے کرے اور بدقسمتی سے ان سکولز میں انگلش کا مضمون براے نام پڑھایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی اکثریت انگلش سے نا بلد ھوتی ہے۔یہاں تعلیم ڈنڈوں کے سائےمیں دی جاتی ہے۔جسکی وجہ سے طلبہ خوفزدہ ہو کر اسکول ہی نہیں جاتے انہی طالبعلموں کی اکثریت جب کالج جاتی ہے تو ٹیچرز کو آنکھیں دکھاتی ہے۔کیونکہ کالج میں ڈنڈا راج نہیں ہوتا۔
یہاں پر کتابیں سمجھا کر پڑھانے کی بجائے رٹوائی جاتی ہیں ـ گورنمنٹ سکولز میں بچوں کی تعلیم کا یہ عالم ہےکہ اکثریت کو فزکس اور کیمسٹری میں فرق کا پتہ نہیں ہوتا یہاں کے زیرتعلیم طلبہ کوئی اچھا روزگار بھی حاصل نہیں کر پاتےاور کم آمدنی والی نوکری جیسے کلرک،سیلزمین اورفیکٹری ورکر جیسے روز گار ہی انکا مقدر بن جاتے ہیں ـ
مدرسہ ایجوکشن سسٹم ہمارے ملک میں تیسرے نمبر پر آتا ہےـ یہاں مکمل طور پر دینی تعلیم دی جاتی ہے۔یہاں انگلش، کمپیوٹراورسائنس بائیو مضامین نہیں پڑھائے جاتےـ گویا یہ نظام دینی تعلیم تو دیتے ہیں مگر دنیاوی تعلیم سےبےبہرہ رہتے ہیں ـ
یہ تینوں نظام ملک میں رائج ہیں مگر ایک دوسرے کے ساتھ ملتے نہیں ـ یہ نظام طلبہ کے درمیان عدم مساوات کو جنم دینے کا باعث بنے ہیں .کیمبرج سسٹم مہنگا ترین تعلیمی نظام ہے جس کے باعث ملک کے چند بچے ہی یہاں تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور سیکنڈری ایجوکیشن سسٹم جس میں گورنمنٹ و پرائیویٹ سکول آتے ہیں، اپنی بے پناہ خامیوں کے ساتھ اکثر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں یہاں معیار تعلیم ناقص ہوتا ہے غیر تربیت یافتہ افراد کی ایک کھیپ یہاں بطور ٹیچر بھرتی کردی جاتی ہے ـ
ہمارے ہاں تعلیم کو سنجیدہ بنیادوں پر لیا ہی نہیں گیا ـ بجٹ میں تعلیمی فنڈز بھی کم ہوتے ہیں ـ گھوسٹ سکولوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور غیر تربیت یافتہ ٹیچرز بھی اس نطام کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ـ
ہمارے طالب علم بھی دوکشتیوں میں سوار ہیں جن میں ایک کشتی کےاوپر اردو اور دوسری پر انگلش لکھا ہوا ہے ـ گورنمنٹ پرائیویٹ سکولز کے بچے آدھے تیتر آدھے بٹیر کی مثال ہوتے ہیں ـ نہ مکمل انگلش سیکھ پاتے ہیں نہ ہی اردو میں مکمل مہارت حاصل کر پاتے ہیں ـ
ہمارے ہاں تعلیم ایک مذاق بنا دی گئی ہے، کمرہ جماعت میں دلجمعی، یکسوئی، اور مکمل مہارت سے پڑھانے کی بجائے اساتذہ اپنے کھولے گئے ٹیوشن سنٹر میں محنت کا علم اٹھاے ہوئے نظر آتے ہیں ـ یہ اساتذہ اپنے سکول، کالج میں اپنے ٹیوشن سنٹر کا مفت اشتہار دے کر اپنے ہی سٹوڈنٹ پر زور دیتے ہیں کہ وہ یہاں آکر ٹیوشن لیں ـ اور جو سٹوڈنٹ انکے پاس ٹیوشن پڑھتا ہے وہ تو اچھے نمبر لے لیتا ہے اور جو نہیں پڑھتا وہ چاہے کتنی ہی محنت کر لے وہ اوسط نمبر سےہی پاس کیا جاتا ہےـ یہ اساتذہ تعلیمی اداروں میں کم مگر اپنے کھولے گئے ٹیوشن سنٹر میں ذیادہ توجہ دیتے ہیں
ایک اور وبا ہمارے تعلیمی اداروں میں اتنی عام ہوچکی ہےکہ شہر میں کسی پلازہ کی بالائی منازل پہ پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیاں خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح جابجا اگی ہوئی ہیں ـ رشوت دے کرآرام سےرجسٹریشن کروالی جاتی ہے یہاں پڑھائی کم اور ہلاگلا زیادہ ہوتا ہےـ اورپوچھنے والا بھی کوئی نہیں ….
ہمارے ہاں کمپیوٹر کی تعلیم بھی اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہر دوسری گلی میں کمپیوٹر کالج کا بورڈ آویزاں دکھائی دیتا ہے جہاں 5،6کمپیوٹر رکھ کر اسے کالج کا درجہ دے دیا جاتا ہے ـ طلبہ کی بڑی تعداد یہاں سے سرٹیفکیٹ حاصل تو کر لیتی ہے مگر کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بڑی کمپنیاں ان ڈگریوں کو نہیں مانتیں گویا وقت اور پیسے کا کھلا ضیاع ہوتا ہے.
ہمارے ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کیطرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی جو چند ٹیکنیکل ادارے ہیں وہ آبادی سےاتنے دور بنائے جاتے ہیں کہ ان تک غریب طلبہ کی رسائی آسان نہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں وائٹ کالر طلبہ کی بہتات ہے جنکے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن کوئی ہنر نہیں یہ فار غ التحصیل طلبہ روزگار نہ ہو نے کے باعث ہاتھ میں سگریٹ جلائے گلی کی ہر نکڑپر کھڑے نظر آئیں گے.اگر ڈگری کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جائے تو وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پاؤں پر کھڑاہو سکیں گے ـ اسی بنا پر طلبہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ نوکری تو ملنی نہیں تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ ؟ یہ ایک عمومی رجحان ہے جو ہمارے طلبہ کے ذہنوں میں جڑ پکڑتا چلا جارہا ہے اور شرح خواندگی کو پست کرنے کا ذمہ دار بھی ہے..
زندگی کے مادی شعبوں میں نمایاں ترقی ہو رہی ہے اور مزید بھی ہو گی مگر پاکستان میں علمی و دماغی ترقی رکتی جا رہی ہے!!! اگر تعلیمی نظام بہتر نہ ہوا تو ہمارا ملک معاشی لحاظ سے بھی کبھی ترقی نہیں کر پائے گا ـ
مذکورہ بالا مسائل دیکھنے میں بڑے لگتے ہیں لیکن چھوٹی سی کوشش ان مسائل کی گھمبیرتا ختم نہیں تو کم ضرور کر سکتی ہے ـ سب سے پہلے تو گورنمنٹ تعلیم پر فنڈ زیادہ رکھے اور ان فنڈز پر نظر بھی رکھے تاکہ کوئی خرد برد نہ کر سکےٍـ یکساں سلیبس تمام صوبوں میں رائج ہو تاکہ سٹوڈنٹس یونیورسٹی کی سطح پر عدم مساوات جیسے مسائل کا سامنا نہ کریں ـ پرائمریاور سیکنڈری تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائےـ ٹیکنیکل ایجوکیشن تمام کلاسز میں ضروری ہوں ـ ورکشاپ کا انعقاد وقتاً فوقتاً کیا جائے ـ تاکہ اساتذہ کو دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے تربیت دی جاسکےـ غریب ومستحق طلبہ کو فنڈز دئیے جائیں تمام طلبہ چاہے وہ غریب ہوں یا امیر..ان کے لیے یکساں تعلیم کا فروغ یقینی بنایا جائے.
ہم ایک ایٹمی ملک ہیں اور ساتھ ہی ایک ترقی پذیر ملک بھی. ہمارے لیے یہ بڑے اعزازکی بات ہے ـ مگر اب وقت آن پہنچا ہے کہ جب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا صرف ایٹمی ملک ہونا ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے؟؟؟

حالیہ بلاگ پوسٹس