Qalamkar Website Header Image

عبدالستار ایدھی ۔۔۔اک گوہر نایاب

Anwe Abbas Anwarمولانا عبدالستار ایدھی۔۔۔ہاں وہی مولانا عبدالستار ایدھی جنہیں ان کے چاہنے والے زبردستی کے مولانا بنا دیتے ہیں، ۔۔۔وہی مولانا عبدالستار ایدھی جوکسی مسجد کے امام نہ تھے اور نہ ہی کسی مدرسہ کے روح رواں رہے ہیں، ہاں وہی مولانا عبدالستار ایدھی جنہیں اپنے اور اپنے خاندان کی نمود ونمائش سے اتنی ہی نفرت تھی جتنی ایک سچا کھرا مسلمان اللہ اور نبی کریمﷺ کی حرام کی ہوئی اشیا سے کرتا ہے۔ دکھی انسانیت اور پریشان حال بنی نوح انسان کی خدمت کو عبادت ہاں سچی مچی کی عبادت کا درجہ دینے والا مولانا عبدالستار ایدھی عالم انسانی کو روتا پیٹتا چھوڑ کر اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا ہے۔
اپنے لیے ایک دمڑی کسی سے نہ مانگنے والا لیکن تڑپتی انسانیت کو زندگی بخشنے کے لیے کراچی تا خیبر فٹ پاتھوں پر کھڑے ہوکر انسانیت سے پیار کرنے والی اپنی قوم سے پائی پائی بھیک میں مانگنے والا عبدالستار ایدھی اپنی زبان پر مرتے دم تک پکا رہا کہ وہ قوم کے دئیے گئے عطیات کو اپنی ذات ،یا اپنے خاندان کے لیے استعمال نہیں کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا تمام عمر ملیشیا کے دو جوڑوں میں بسر کردی اور کبھی پرتعیش زندگی گذارنے کے خواب اپنی آنکھوں سجانے کی بجائے ان آنکھوں میں محبت کے متلاشی بے سہارا بچے ،بوڑھوں اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کے خواب بسائے اور پھر ساری زندگی ان خوابوں کو تعبیر فراہم کرنے کی جدوجہد کی نذر کردی ۔۔۔
مولانا عبدالستار ایدھی کو اپنی اس زندگی پر کبھی ملال اور افسوس نہیں ہوا بلکہ انہوں نے اپنے اس مشن پر فخر ہی کیا ہے اور لاہور ،کراچی ،پشاور ،کوئٹہ سمیت دنیا بھر میں جہاں بھی گیا سراٹھا کے جیا۔ کبھی کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہیں کیا جس سے اسے اور ملک و قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پرا ہو ۔۔۔مولانا عبدالستار ایدھی نے اپنی قوم اور ملت کو کبھی مایوس نہیں کیا ،ہر مشکل کی گھڑی میں وہ اپنے عوام کے درمیان موجود رہا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مصیبت زدگان نے اسے آزمائش کے لمحات میں پکارا تو اس ضعیف اور نحیف مولانا نے انہیں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ اس کے پاس ان کی مدد کے لیے وقت دستیاب نہیں ہے وہ ہر قیمت پر ان کے پاس پہنچا اور ہر ممکن ان کی مدد کرنے اور ان کی آرزؤں تمناؤں پر پورا اترنے کی کوشش کی چاہے اسکے لیے اسے اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانی پڑی ہو۔
میں اپنے بچوں کو بتا رہا تھا کہ اس عظیم انسان جسے دنیا عبدالستار ایدھی کے نام سے جانتی ہے اور پہنچانتی ہے، نے اپنی پوری سماجی زندگی میں بیرون ملک اور اندرون ملک کسی حکومت یا حکومت کے کسی ذیلی ادارے اور تنظیم سے فنڈز قبول نہیں کیے شائد نہیں مجھے پختہ یقین ہے کہ مولانا عبدالستار ایدھی کے’’ لوں لوں وچ غیرت‘‘ رچی بسی تھی حکومتوں اور اسکی تنظیموں سے فنڈز لینے میں جو قباحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں ایدھی ان سے بخوبی آگاہ تھا ۔۔۔حکومتیں خود براہ راست یا اپنی ذیلی تنظیموں کے توسط سے چند لاکھ دیتے ہیں اور پھر جوانکی جانب سے مطالبات ان کی جانب پیش کیے جاتے ہیں وہ قومی و ملی اور شخصی غیرت کو گروی رکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں جبکہ مولانا عبدالستار ایدھی اپنی خود مختاری، آزادی کو کسی قیمت پر گروی رکھنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا تھا وہ حکمران تھوڑ اتھا کہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور اپنے اقتدار کے دوام کے لیے غیر ملکیوں کے آگے ’’ ڈھیر‘‘ ہو جاتا مولانا عبدالستار ایدھی ایک سچا محب وطن پاکستانی اور صاف گو مسلمان تھا جس کے اندر اپنے ملک اور دین کی محبت کوٹ کوٹ کربھری تھی جو اسے دنیا جہاں کی نعمتوں سے بڑھ کر عزیز تھے جن پر وہ کسی طور سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہ تھا
مرد درویش جسے اس کے چاہنے والے پیار سے فقیر سا بادشاہ بھی کہتے ہیں قیام پاکستان سے قبل اسی سال پیدا ہوا جس سال دنیا بھر کی سیاست میں تہلکہ ، لرزہ اور ارتعاش پیدا کرنے والا عظیم سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوا یعنی 1928 میں ایدھی نے بھارتی گجرات میں جنم لیا اسی گجرات میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی پیدا ہوا،دونوں کی جنم بھومی یک ہی ہے ،دونوں کا مقصد بنی نوح انسان ، مخلوق خدکی خدمت کرنا ہے، دونوں نے اپنے ایک مقصد کے لیے دو الگ الگ پلیٹ فارمزکو منتخب کیا،مودی نے عوام کی خدمت کے لیے میدان سیاست کا انتخاب کیا اور ہمار ے ’’ایدھی‘‘ نے سیاست کے میدان کارزار میں قسمت آزامائی تو ضرور کی اور ایوب خان کے بلدیاتی اور 1970 کے ا نتخابات میں حصہ لیا مگر عوام نے اپنی تقدیر بدلنے کے لیے مرد درویش کے وعدوں اور باتوں پراعتبار،اعتماد ،بھروسہ اور یقین کرنے سے انکار کرتے ہوئے ووٹ اس کے مخالفین کی صدوقچیوں میں ڈالے، اس تجربے کے بعد مولانا عبدالستار ایدھی نے سیاست سے ایسی کنارہ کشی کی کہ اسے تین طلاقیں ہی دے دیں، اور فیصلہ کیا کہ اب وہ سیاست کے میدان سے باہر رہ کر دکھی انسانوں کی تسکین قلب و روح کا سامان کرنے ،انکے مرجھائے گلاب چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار لانے کا بیڑہ اٹھائے گا۔
مودی تو سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے کے اصول پر چلتے ہوئے ایوان اقتدار میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا، مرجھائے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے مشن کو اپنی زندگی بنانے والے کو اس دنیا کے اربوں عوام نے اپنے دل کی سلطنت کا بادشاہ تسلیم کیا۔نریندرمودی نے اقتدار کے تخت کے حصول کے لیے نسلی،مذہبی، لسانی اور قومیتوں میں امتیاز بھرتنے کو ترجیح دی اور گجرات میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندؤں اور دیگر اقوام کے باشندوں کا قتل عام کرکے ہندو ازم کو پروان چڑھایا اور اس طرح بھارت کے وزارت عظمی کے منصب کا حصول ممکن کرلیا۔ جبکہ عبدالستار ایدھی نے بلاامتیاز مذہب و ملت، رنگ و نسل ،لسانی اور قوم کے سب کی یکساں خدمت کرنے کو اپنا اصول بنایا ۔۔۔ مرد درویش عبدالستار ایدھی نے دکھی،پریشان اور مصیبت کے مارے لوگوں کی خدمت اور مدد کو سرحدوں کے اندر مقید نہیں کیا، عالمی سطح پر اللہ کے بندوں پر جب بھی کوئی مشکل کی گھڑی آئی تو اس مرد درویش کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے پاس پہنچا اور اپنے وسائل جو اپنی مدد آپ کے ذریعے جمع کیے ان سے انکی بھرپور مدد کی۔
چشم فلک اور کھربوں عوام نے دیکھاکہ نریندر مودی عوامی خدمت مذہبی،نسلی امتیاز اور ملک و ملت کا تعصب کا اسیرتھا جب کہ ہمارے عبدالستار ایدھی نے ہر طرح کے تعصب کو قریب نہیں آنے دیا،انہوں نے بلاامتیاز رنگ ونسل،مذہب و ملت اپنی آغوش مادری میں لے کر امن ، محبت اور انسانوں سے الفت کی لوری سنائی۔معاشرے کے ستائے ،دھتکارے معصوم بچوں ،ننھی کلیوں کو کچرے کے ڈھیروں پرسے اٹھاکر انہیں عزت اور غیرت کے ساتھ جینے کی امنگ اور ترنگ عطا کی، بھیک مانگتے اچھے بھلے صحت مند اور توانا او ستم گروں ،ہوس زر میں اندھے ناسوروں کی جانب سے ناکارہ بنا دئیے گئے افراد کو اپنی گود میں لیکر انہیں معاشرے کا کارآمد انسان بنانے میں ساری زندگی بسر کرنا دور حاضر کے انسانیت کے محسن، سلطنت خدمت خلق کے بے تاج بادشاہ نے اقتدار کے بغیر بیس بائیس کروڑ لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے اور تاقیامت یہ حکمرانی لوگوں کے قلب و اذہان میں قائم رہے گی ۔
شہرت کی انتہا بلندیوں کو چھونے ، بیس بائیس کروڑ عوام کا اندھا بھروسہ اور اعتماد حاصل ہونے کے باوجود اس مرد درویش کو ہوس اقتدار کے سمندر میں غرق غیر جمہوری عناسر کی جانب سے انہیں ورغلانے کی کوشش کی گئی، اور عمران خان کے ساتھ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں تعاون کے عوض انہیں عبوری وزیر اعظم بنائے جانے کی پیشکش کی گئی لیکن اقتدار کی آلائشوں سے اپنے وجود اوردماغ کو پاک رکھنے پر کاربند،اس سیدھے سادھے عبدالستار ایدھی نے پاکستان کا عبوری وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے معذرت کرلی، جسکا مطلب ہے کہ انہوں نے غیر جمہوری عناصر کا ایک جمہوری حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا، جمہوریت کے خلاف اس سازش کے ماسٹر مائینڈ جہادی جنرل حمید گل اور دیگر کے کردار کو ایدھی مرحوم نے لندن جا کر بے نقاب کیا جس کے بعد انہیں قتل سمیت ملک چھوڑنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن اس وطن پرست عظیم انسان نے ان دھمکیوں کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال پھینکا۔
یہ مرد قلندر اب اس دنیا فانی میں موجود نہیں لیکن تمام سول ،جمہوری اور عسکری قیادت نے اسکی نماز جنازہ میں شرکت کرکے 1970کے ناکام سیاست دان کے کارہائے نمایاں کو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کرکے ثابت کیا کہ ’’عبدالستار ایدھی واقعی عوام کی خدمت کو عبادت سمجھتا تھا ۔ سول اور عسکری قیادت نے اسے مکمل فوجی اورقومی اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کرنے کا فیصلہ کرکے ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ھکومت اور فوجی قیادت کے اس اقدام سے دکھی انسانیت اور مصیبت زدہ لوگوں کی خدمت کرنے والوں کو راہ دکھائی ہے کہ ان کی خدمات کو قوم تحسین کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کو جس پروٹوکول کے ساتھ سپردخاک کیا گیا ہے اس سے قبل وہ پاک فوج کے سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیا الحق کو فراہم کیا گیا ہے۔ پاکستان کے عوام نے قرار دیا ہے کہ مولانا عبدالستار ایدھی اک گوہر نایاب تھا جسے ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ پایا جا سکے گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس