جس طرح ایک خودکش حملہ آور کو پہلے ذہنی طور پر خودکشی کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کام اللہ کے رضا کےلیے دین کے راستے میں اپنی جان قربان رہا ہے۔ ان لوگوں کو اس طرح سے ذہنی طور پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ اسے نہ تو اپنی جان کی پرواہ ہوتی ہے نہ اپنی والدین کی فکر کہ اس کے بعد ان کا کیا بنے گا۔ اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ اس کام کےلیے ہمیشہ ایسے لوگ تیار ہو جاتے ہیں جو مفلسی اور کم علمی کی وجہ سے آسانی سے اندھی تقلید میں کسی کو بھی اپنا سب کچھ ماننے کےلیے تیار ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہیں جو سالہا سال سے ہر قسم کے دکھ رنج، مفلسی، اور نا انصافیوں کے باوجود ایسی شخصیات پر اپنی جان نچھاور کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے صرف اپنے اور اپنے چند قریبی چمچوں کے سوا کسی کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا۔
بلاشبہ اس ملک میں کئی ایسی سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں جو ہمیشہ لوگوں کو حقوق دلوانے کی باتیں کرتی رہی ہیں کہ اگر انہیں اقتدار مل گیا تو ان کی زندگیاں بدل دیں گے مگر ہوتا وہی ہے جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ یعنی پھر وہی غربت، وہی نا انصافیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پھر سے شروع ہوجاتاہے۔
دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہر ادارہ اور ہر جماعت کسی خاص مقصد کے گرد نہیں بلکہ شخصیات کی گرد گھومتے نظر آتے ہیں پھر یہی لوگ خوشامد کے ذریعے ایسے لوگوں کو پروٹوکول دیتے ہیں جو انہی کی طرح سوچ رکھنے والے کرپٹ ہوتے ہیں۔ چاہے نواز لیگ ہو، پیپلز پارٹی ہو، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، یا کہ دوسری جماعتیں،ان میں صرف اور صرف قریبی شخصیات ہی آگے جاسکتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ جماعتیں ہمیشہ قوم اور مذہب کا سہارا لے کر لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور یہی لوگ جو نسل در نسل ان کے دھوکے کے شکار رہے ہیں پھر سے اندھی تقلید میں گرفتار ہو کر ایسی شخصیات کو مسیحا سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید اس بار میری "قوم” یا میرے "مذہب” کےلیے ایک نیا دور شروع ہوگا اور پھر سے یہ جیالے میدان میں نکل پڑتے ہیں اور شخصیت کا دفاع ایسے کرنے لگ جاتے ہیں جیسے اگر ان کا بنایا ہوا بت نہیں جیتا تو خدانخواستہ قوم و مذہب خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اور یوں یہ "خودکش حملہ آور” بن کر ہر ایک سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے اس شخصیت کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے میں ہر دم پر پل خود کو تیار رکھتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کی اپنے فیملی کن حالات سے گزر رہی ہے اور اس سے پہلے ان شخصیات نے ان کے لیے کیا کام سرانجام دیے ہیں۔
سچ یہ تو ہےکہ جس طرح ایک خودکش حملہ آور کو کسی قیمت پر جنت میں جگہ نہیں ملے گی اسی طرح ان حالات کے مارے مفلس لوگوں کو بھی کبھی چین و سکون نصیب نہیں ہو گا جب تک کہ ان ظالم، خودغرض اور لالچی لوگوں سے پیچھا نہیں چھڑائیں گے اورحقیقی معنوں میں اپنی جدوجہد کرکے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان سے نجات نہیں دلوائیں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn