کیا کہوں دوستوں، گزشتہ دنوں دہشتگردوں نے جن دو افراد کو شہید کیا میرا ان سے بہت قریبی رشتہ ہے۔ مسلسل تین دن تک ان کے ساتھ مصروف رہا لیکن شہید محمد علی کی والدہ اور شہید جعفر علی کے بچوں کی فریاد اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ ایک فرد کے جانے سے کس طرح پورا خاندان اجڑ جاتا ہے یہ پچھلے بیس سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ دوست تواتر سے دھرنے کی خبر سناتے رہے لیکن میں خاموش رہا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ منجن بیچنے والے اپنے پروڈکٹ کو لے کر پہلے کی طرح بازار میں نکل گئے ہوں گے اور دھیمی آواز میں منجن بیچ کر کچھ تصاویر فیس بک کے شایان شان پوسٹ کرکے اپنے ہی طرح کے کچھ کم مغز رکھنے والوں سے بہت سارے لائک وصول کرکے پرسکون بیٹھ گئے ہوں گے۔
پھر یہ ہوا کہ سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز دیکھیں۔ پہلی بار میں نے کسی کی آنکھوں میں اپنی قوم کے لیے وہ مظلومیت وہ بے قراری دیکھی جو میں اکثر کسی شہید کی ماں کی آنکھوں میں دیکھتا رہا ہوں، وہ باتیں سنیں جو ہر نوجوان سننا چاہتا ہے، وہ اتحاد دیکھا جو ہر بلوچستانی دیکھنا چاہتا ہے، وہ جرات دیکھی جو ہر بہادر انسان دیکھنا چاہتا ہے، وہ خلوص دیکھا جس کی ہر کوئی تمنا کرتا ہے کہ ہمارے لیڈر میں ہو، وہ بہتے ہوئے آنسو دیکھے جس طرح کوئی بچی اپنی شہید باپ سے لپٹ کر رو رہی ہے۔
کہتے ہے کہ نیت صاف ہو تو منزل بھی آسان ہوجاتی ہے اسی لیے صرف تین دن میں اس جرات مند خاتون نے نہ صرف اپنی کمیونٹی کے دل جیتے بلکہ بلوچستان میں رہنے والے ہر قوم و مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے دل جیت کر یہ بتا دیا کہ عورت اگر چاہے تو اپنی جرات و استقامت سے کیا نہیں کر سکتی۔ جی ہاں میں جلیلہ حیدر کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے ہمیشہ انسانیت کا پرچار کیا، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا تعلق کس قوم و مسلک سے ہے مظلوموں کے دکھ میں شریک رہی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ شانہ بہ شانہ ہم آواز ہوکر آخر تک کھڑے رہے لیکن کچھ لوگوں سے آج یہ برداشت نہیں ہو رہا کہ ایک تنہا لڑکی راتوں رات ایک قافلے کی شکل کیسے اختیار کر گئی۔ پہلے تو بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے والوں کو ایجنٹ اور غیر ملکی قرار دیا پھر بھی بات نہ بنی تو سوشل میڈیا پر جلیلہ حیدر کی تصویروں کے ساتھ مذہبی نعرے لکھ کر اپنی بوکھلاہٹ کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ آرمی چیف صاحب کو جلیلہ حیدر کے سوالوں کا جواب دینے کوئٹہ آنا پڑا اور ہزارہ کمیونٹی کے جو مطالبات تھے انہیں سننا پڑا۔ اور تو اور چیف جسٹس صاحب نے بھی ہزارہ نسل کشی پر سوموٹو نوٹس لے لیا ہے۔
اس کیمپ کی خوبصورت بات یہ تھی کہ پہلی دفعہ کسی بھوک ہڑتالی کیمپ میں ہر پارٹی اور علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان اظہار یکجہتی کے لیے موجود تھے۔ میری نظر میں اب نوجوان خود اپنے مستقبل کا تعین کرنے نکل پڑے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جلیلہ حیدر اپنے دوستوں کے ساتھ اسی طرح لوگوں کے امیدوں اور توقعات پر پورا اترتی رہیں گی اور اس جدوجہد کو مزید فعال کریں گی؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn