Qalamkar Website Header Image

قندیلیں جلتی بھجتی رہیں گی

غیرت کے نام پر قتل بھی سب سے زیادہ جنوبی پنجاب میں ہوتے ہیں جہاں عورتیں گھر گھر کام کرتی جبکہ ان کے مرد جوئے اور شراب کے دلدادہ بھی سب سے زیادہ اسی علاقے کے ہیں. شادی شدہ عورتیں اپنے شوہروں سے مار کھاتی گالم گلوچ کرواتی سر کے سائیں پہ عمریں گزار دیتیں ہیں اور ہائے بھی نہیں کرتیں اگر کچھ بول دیں تو میکے والے بچوں اورڈھلتی عمر کا واسطہ دیتے اور طلاق یا علیحدگی کو گناہ سمجھتے ہیں..

خواب دیکھنا اور ان.خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا بھی تقریبا گناہ سمجھا جاتا ہے ایسی ہی ایک کہانی قندیل بلوچ کی ہے جب تک.مفتی قوی کے ساتھ سیفلیاں منظر عام پر نہیں آئیں تھی قندیل کو بہت کم لوگ جانتے تھے سہیل وڑائچ نے اپنے پروگرام میں قندیل کو بہت امیر دکھایا جبکہ اس کی امارت کا بھانڈا اس کی لاش نے پھوڑا دیا جب وہ بنا چادر کے ایک پرانی چارپائی پر پڑی تھی .

تین سال ہو گئے قندیل کے قتل کو قتل کا اقرار کرنے والے جیل میں قتل پہ اکسانے والے ضمانت پر ہے قندیل کا باپ اندھا ہو گیا ہے اور ماں اکیلی پیشی پر آتی ہے باپ کہتا ہے جب سے قندیل مری ہے غربت کے مارے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا وہ میری بیٹی نہیں بیٹا تھی جب تک بھائیوں کی جیبیں بھرتی رہی وہ بہن تھی پھر وہ نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھ گئ .3 سال میں کوئ فیصلہ نہ ہونا عدلیہ اور حکمرانوں کے منہ پر چماٹ ہے پر یہاں شہرت والے کیس روزانہ کی بنیاد پر سنے جاتے ہیں اور غیرت والے کیس دبا دیئے جاتے ہیں . بلکہ کیس کیا پوری کی پوری زندہ عورتیں بے نام و نشان کر دی جاتی ہیں اور گھر والے کہتے ہیں کیا ہوا لڑکی تھی مر گئ بس اب باپ بھائیوں کو جینے دو .

یہ بھی پڑھئے:  میں آپ کی تمام پریشانیوں کا حل لایا ہوں

کاش کوئی یہ سوچے کہ وہ لڑکی انسان بھی تھی آس کا دل بھی تھا خواہشیں بھی تھیں قندیل جو بھی تھی میری آپ کی اور مفتی کی طرح منافق نہیں تھی آس کے دو چہرے نہیں تھے جو تھی جیسی تھی دنیا کے سامنے تھی نہ اس نے مذہب کے لبادے میں خود کو چھپایا نہ دنیاوی زندگی سے منہ موڑا .وہ جینا چاہتی تھی وہ جینا چاہتی تھی اپنے طریقے سے زندگی کو دیکھنے کے خواہش رکھتی تھی وہ اچھی تھی یا بری اس طرح کی موت کی حقدار تو نہ تھی قندیل گئ اچھا ہوا اگر وہ دو چار سال اور زندہ رہ جاتی توناجانے کتنے باریش اور بظاہر عزت داروں کو بےنقاب کرتی …

حالیہ بلاگ پوسٹس