میرے اکثر یار ، دوست ، جاننے والے ڈاکٹر ہیں ۔ ہماری جب بھی بات ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے کیا کچھ نیا سیکھ لیا ۔کوئی نیا طریقہ علاج معالجہ، دوائی وغیرہ کے بارے میں اکثر پوچھ لیتے ہیں۔ پھر ہم شروع ہو جاتے ہیں اور وہ سب کچھ جو ہم ہسپتال میں دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور سیکھتے ہیں بول دیتے ہیں ۔
پھر کھبی کبھی جب اپنے وارڈ میں نظر دوڑاتا ہوں اور بیڈ نمبر ایک پر ایک عمر رسیدہ اماں جی کی اپنے جوان بیٹے کی آخری سانسیں گنتے ہوئے ان کے گالوں کو تر کرتا آنسوؤں کو دیکھتا ہوں ، وہ کونے والے بیڈ پر ایک مریض کینسر کے مرض میں مبتلا درد سے چیختا چلاتا دیکھتا ہوں.
وہ کھڑکی کے پاس ایک بچہ اپنے امی سے لپٹ کر روتا ہوا کہتا ہے آپ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گی ، وہ ساتھ والا بابا جی درد سے کہتا ہے کہ بیٹا میرے پاس اپنی بیٹی کے علاج کے لیے پیسے نہیں مجھے اجازت دو میں اس کو گھر لے جاؤں گا جب مرنا ہوا مر جائے گی اور اس بابا جی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ اپنی بیٹی کی پریشانی کی وجہ سے اس سے پہلے مر جائے گا ۔
یہ سب کچھ روزانہ کی بنیاد پر دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم تھوڑی بہت وہ رقم جو ہم پیزا ،برگر ، غیر ضروری رسومات، بےہودہ قسم کے تقریبات، فضول خرچی میں ضائع کرتے ہیں اس سے ان بےچارے مریضوں کی کوئی مدد کی جائے اور معاشرے میں ہمارا جو مقام ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے صاحب استطاعت لوگوں سے مالی امداد لے کر ان لوگوں کی بہتری کی کوشش کریں تو کتنی اچھی بات ہوگی اور ساتھ میں یہ کاش! ہم ڈاکٹروں نے اگر ہسپتال میں رہتے ہوئے صرف ایک اللہ کا شکر ادا کرنا ہی سیکھ لیا تو بہت بڑی بات ہوگی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn