شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے ۔معاشرے کی سمت نمائی جیسی اہم ذمہ داری شاعرہی کو سزاوار ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر شعرا سے قدرِ بے اعتنائی برتی جاتی ہے اور انھیں درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حساس اور اہم طبقے کے لیے مقدور بھر پذیرائی کا اہتمام ضلعی اور حکومتی سطح پر کیا جائے۔ حال ہی میں ضلع کونسل اٹک میں جشنِ بہاراں کے سلسلے میں منعقد ہونے والا مشاعرہ اس حوالے سے انتہائی اہم قدم ہے۔ جس میں مقامی شعرا کے علاوہ ملکی سطح پر شہرت کے حامل شعرا نے شرکت کی۔ اس اقدام پر ضلعی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔
یہ مشاعرہ ضلع کونسل اٹک کے جناح ہال میں جشنِ بہاراں کے موقع پر چوپال ادبی فورم اور ضلع کونسل اٹک کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ جس میں ملکی اور مقامی شعرا نے اپنا کلام سنا کر حاضرین کو محظوظ کیا۔ نظامت کے فرائض ممتاز شاعرہ شازیہ اکبر نے بحسن وخوبی انجام دیے۔ مشاعرے کی صدارت برصغیر پاک و ہند کے نامورشاعر افتخار عارف نے کی۔ آپ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے چیئرمین ہیں۔ فنی حوالے سے مستندحوالہ رکھنے کے ساتھ ساتھ شخصی حوالے سے ہزاروں خوبیاں آپ کے پیکر میں ڈھل کر دلوں میں گھرکرلیتی ہیں۔ مہمانانِ اعزاز میں منظرنقوی ،حسن عباس رضا،مہمانِ خصوصی اخترعثمان جبکہ آرگنائزاعجازخان ساحر اور مشتاق عاجز تھے۔
جشنِ بہاراں کے حوالے سے یہ پُرہجوم مشاعرہ رات تقریباً 10 بجے کے قریب شروع ہوا۔ جو بغیر کسی وقفے سے1:30 بجے تک جاری رہا۔ ضلع کونسل کے کشادہ جناح ہال کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اہلِ ذوق سامعین مشاعرہ سننے کے لیے تقریباً رات 9 بجے ہی سے اپنی نشستوں پر پہنچ گئے۔ اکثر شعرا نے ایک غزل،ایک نظم یا چند اشعار سنا کر ہی دادِ تحسین حاصل کی ۔اٹک کے بزرگ اور منجھے ہوئے شاعر مشتاق عاجز نے اپنی مشہور پنجابی نظم ’’کالے کاں‘‘پیش کرکے محفل پرسحرانگیز کیفیت طاری کردی اور ہال میں بیٹھے سامعین نے اپنی نشستوں سے اُٹھ کر اور تالیاں بجا کر کافی دیر تک اُن پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ پنڈی گھیب سے آئے ہوئے شاعر ابرار باری نے بھی اپنے پیش کردہ نظم ’’کمانڈر‘‘ پر کلام پر خوب داد سمیٹی۔ طاہراسیر نے آزاد نظم ’’اعترافِ شکست‘‘اور،نصرت بخاری نے پنجابی نظم ’’پرائیویٹ سکول‘‘ پیش کی جبکہ سعادت حسن آس نے نعتیہ کلام سے دل و نگاہ کو روحانی سکون فراہم کیا۔ شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم ’’دارالشکوہ‘‘ سنا کرمحظوظ کیا۔ سہ ماہی جمالیات کے مدیرِ اعلیٰ حسین امجد نے اپنے مخصوص پُرسوز انداز میں کلام پیش کیا۔
لاہورسے خصوصی طورپر آئے ہوئے شعرائے کرام سجاد بلوچ اور اُن کی اہلیہ عنبرین صلاح الدین نے اپنی فنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ مشاعرہ میں حسن جمیل نے اپنے منفرد اوراچھوتے انداز میں محفل کو مسحور کن کیفیت سے دوچار کیا۔ اس کے علاوہ ثقلین عباس انجم، سجادحسین ساجد،اعجازخان ساحر، ریاض کاوش،عمران بشیر،عقیل ملک،عصمت اللہ نیازی،شمشیرحیدر،حسن جمیل،رئیس عباس، حفیظ اللہ بادل، میثم نقوی،عزیزطارق، محمودناصراور رفعت اقبال نے کلام پیش کیا۔ اٹک کے معروف شاعر محسن عباس ملک ،نزاکت علی نازک، اور سجاد حسین سرمدجبکہ فتح جنگ شہر کے مستندشاعر داؤد تابش بوجوہ محفل میں شریک نہ ہوسکے۔ ڈاکٹر عبدالعزیزساحراور ڈاکٹرارشد محمود ناشاد کی کمی کو سامعین نے شدت سے محسوس کیا۔ مجموعی طورپر معیاری اور پختگی سے بھرپور کلام سننے میں آیا۔ مشاعرے کے اختتام پر شرکا نے بین الاقوامی شعرا کی موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور اِن تاریخی لمحات کو گروپ فوٹوز کی شکل میں محفوظ کرلیا۔ محفلِ مشاعرہ میں شرکت کرنے والے سامعین میں معروف سماجی شخصیت ڈاکٹر فیاض بخاری ،ماہرِ تعلیم افضال ملک،سردارشبیرخان، رانا افسرعلی خان،ملک خالد اعوان، سردراواجد علی خان،عطاء الرحمن ایڈووکیٹ، انجینئر عامرملک ،انجینئر عاقب ملک، کونسل آفیسر عابدرضاخان، سینئرصحافی سید قمر الدین، ندیم رضا خان نے اس پُروقار محفلِ مشاعرہ کو ہواکاتازہ جھونکا قراردیتے ہوئے کہا کہ اٹک کی سرزمین پر مدتوں بعد ایسی بہترین محفل کے انعقاد کاسہراضلعی حکومت اور پروگرام آرگنائز اعجازخان ساحر ،لیجنڈ آف اٹک مشتاق عاجز صاحب کے سر ہے۔ اٹک کے ادبی حلقوں نے اس مشاعرہ کے انعقاد پر دلی مسرت کااظہار کیااور اس یقین کااظہار کیا کہ آئندہ بھی ضلعی حکومت اِسی طرح کے پروگرام منعقد کرکے ضلع اٹک کے شعرا کو پذیرائی کے مواقع فراہم کرتی رہے گی۔ شعرا ئے کرام کا نمونہ کلام:
افتخار عارف: ہم ہر ادیب ہر اُس بے ادب سے واقف ہیں ۔اختر عثمان: فلک پہ اختر کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔منظرنقوی: ہم نے جیبوں میں رکھ لیے عدسے ۔حسن عباس رضا: اس نے بس اتنا ہی کہنا ہے رضا بسم اللہ۔ شہاب عالم:وہ میرے بوسے کی مخبری ہے۔ سجادبلوچ: یہ رات صدیوں سے میرے سینے پہ چل رہی ہے۔ حسن جمیل: بس خود کو بچایا ہی نہیں وار سے میں نے۔ سجادحسین ساجد: جو بھی رکھتا ہوں ترا نام بجا رکھتا ہوں۔ عزیزطارق: ہم تو شاعر ہیں محبت کی زباں بولتے ہیں۔سعادت حسن آس: یا تو احساس مگر گیا یا پھر جینے والوں کے حوصلے ہیں بہت۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn