Qalamkar Website Header Image

لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے: ڈاکٹر ریاض

کراچی یونیورسٹی کے استاد اور حقوقِ انسانی کے لیے آواز بلند کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے افراد کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حکومت کی پالیسییوں یا فوج کے اقدامات کے ناقد ہیں۔

ڈاکٹر ریاض کو گذشتہ ہفتے غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ سماجی کارکن اور اساتذہ اسے ایک جعلی مقدمہ قرار دیتے ہیں اور جمعرات کو ہی ان کی ضمانت پر رہائی ہوئی ہے۔

رہائی کے بعد کراچی میں بی بی سی اردو کے فیس بک لائیو میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ ایک استحصالی نظام ہے جہاں بڑے بڑے سرمایہ کار پوری انسانیت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے اس نظام کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی ریاست بھی سرمایہ دارانہ ریاست ہے جہاں آواز دبانے کے لیے بدترین تشدد کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی پالیسیاں غلط ہیں یا اس حکومت کی فوج کا ایکشن غلط ہے، یا سیاست غلط ہے یا وہ لوگوں کو حقوق نہیں دے رہی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس ریاست کو سمجھنے کے لیے سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘یہاں پر پہلے بھی حدیں کھینچی گئیں۔ ہم تو بات ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غلط ہو رہا ہے اور غلط نہیں ہونا چاہیے۔ نہ کبھی پتھر مارا اور نہ ہی کسی سے کہا کہ پتھر مارنے کی ضرورت ہے۔’

یہ بھی پڑھئے:  اسلام آباد میں حالات سنبھالنے کے لئے فوج کی ۱۱۱ بریگیڈ طلب

ڈاکٹر ریاض احمد نے جنوری میں لاپتہ ہونے والے بلاگرز کی رہائی کے لیے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا تھا اور خفیہ اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اس سے قبل جب ‘لمز’ نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے کے مقصد سے ہونی والی کانفرنس منعقد کرنے سے معذرت کی تھی تو کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر ریاض نے ہی اس سلسلے میں مباحثہ منعقد کیا تھا۔

اس سوال پر کہ کیا ان کو لگتا ہے کہ آواز دبانے کی کوشش میں شدت آتی جا رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت ایک پسماندہ ملک کی طرح ہے اور اس کے ادارے بھی پسماندہ ہیں۔

‘میں اس بات پر خوش ہوں کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ میں بات کہنے کی کوشش کر رہا ہوں اور ان لوگوں نے کہیں زیادہ بھرپور انداز میں بات کہی۔ اور جو آواز خاموش کرانا چاہ رہے تھے ان کو معلوم ہو گیا کہ یہ صرف ڈاکٹر ریاض اور مہر افروز مراد نہیں ہیں بلکہ بہت زیادہ لوگ ہیں جو اتنا آسانی سے خاموش نہیں کیے جا سکتے۔’

ایک اور سول کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اب قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ کسی کو دست اندازی کی، ٹارچر کرنے کی، ماورائے عدالت قتل کی وغیرہ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور لوگوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھئے:  اب اس علاقے سے پرندہ بھی گزرے تو پہلے ہم سے اجازت لے- چین

جب ان سے پوچھا گیا کہ سائبر قانون کے بعد کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو توہین مذہب کا الزام لگ سکتا ہے تو کیا آواز بلند کرنے کا موقع کم ہوتا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی ذمہ دار وہ سامراجی قوتیں ہیں جنھوں نے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا شور مچا رکھا ہے۔

’وہ لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام کی تضحیک کرتے ہیں اور اس سلسلے کو پہلے روکنا چاہیے اور اس کے بعد یہاں کے لوگوں کی جانب آئیں۔ یہاں کے لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر طرف سے ہم پر حملہ ہو رہا ہے۔ وہاں کے لوگوں کی جانب سے کارٹون بنائے جانے کے باعث نوجوان خودکش بمبار بننے کا سوچتے ہیں۔ پہلے ان کی مذمت کریں نا کہ اپنے لوگوں کو ٹوکنے کھڑے ہو جائیں۔‘

حالیہ بلاگ پوسٹس

Chief Justice Qazi Faez Isa

لگتا ہےکچھ ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں تاکہ انتخابات نہ ہوں: چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے پی کے 91 ریٹرننگ افسر کوپشاور  ہائیکورٹ سے معطل کرنے کےخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی جس دوران وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے

مزید پڑھیں »

انتخابات 2024 : جمع کروائے اور مسترد کیے گئے کاغذات نامزدگی کی تفصیلات

الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 7 ہزار 473 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں سے ایک ہزار 24 امیدواروں کےکاغذات مسترد کیے گئے۔ جبکہ  6

مزید پڑھیں »